ہمارے اور کامیابی کے درمیان کی حدود ہمارا اپنے دماغ کو اعلیٰ انداز سے استعمال نہ کرنے کی وجہ سے رہ جاتی ہوتی ہے۔

 

فرانس کے ایک شہنشاہ سے باغیوں نے تخت چھین لیا، جس کے بعد بادشاہ خود خدا خدا کر کے اپنی جان پچاتے ہوئے کسی طرح ملک سے فرار ہو گیا، مگر کچھ ہی عرصے کے اندر وہ اپنی اس شکست کو عارضی ثابت کرتے ہوئے چند مٹھی بھر سپاہیوں کے ساتھ دوبارہ قبضہ کرنے کے لیے فرانس پر چڑھائی کر دی۔ اتنا کم تعداد کے ساتھ لڑائی کا مطلب موت کو گلے لگانے کے مترادف تھا، مگر وہ بادشاہ ہمیشہ طاقت پر دماغ کو فوقیت دیتا ہوتا تھا، اس کی ایک بہترین عادت یہ تھی کہ وہ کسی بھی جنگ سے پہلے اس میدان جنگ کا دماغ میں ایک خاکہ بناتا اور پھر خود ہی دونوں اطراف سے سوچنے لگتا تھا کہ اگر ایسا ہوا تو میں کون سا طریقہ اختیار کر کے جنگ کو اپنے حق میں بہتر بنا سکوں گا ؟ جس طرح میں نے سوچ رکھا ہے اگر ایسا نہ ہوا تو پھر اس کا حل کیا ہوگا ؟

اگر ان سب داؤ پیچ کے باوجود بھی جنگ میرے حق میں نہ ہوئی تو پھر ایسا کون سا آخری عمل ہوگا جو مجھے کامیابی دلانے میں میرے حق میں بہترین ثابت ہوگا ؟

وہ اس طرح چھوٹی سی چھوٹی چیزوں پر غورو فکر کرتا اور میدان جنگ میں لڑنے سے پہلے ہی دماغی طور پر جنگ جیت چکا ہوتا اور پھر میدان میں بھی کچھ اس سے چیزیں مختلف نہیں ہوتی تھی۔

جب بادشاہ تھوڑی بہت تیاری کے ساتھ دوبارہ فرانس کے حصول کے لیے میدان جنگ میں اترا تو اس کے سامنے فرانس کی طرف سے لڑنے والے ہزاروں کی تعداد میں نوجوان سپاہی تھے، لڑائی شروع ہونے کے بعد کچھ ہی وقت میں بادشاہ یہ بات سمجھ گیا کہ اس جنگ کو تلوار کے زور پر جیتنا کسی دیوانے کے خواب سا ہوگا، تھوڑی دیر اور لڑنے کا مطلب اپنے ساتھیوں سمیت خودکشی کرنے کے مترادف ہوگا اور اس کے سامنے دوسری طرف کے جوان سپاہی اپنی بہادری کے جوہر دکھاتے ہوئے اپنے پورانے بادشاہ کی فوج کے سپاہیوں کے خون سے زمین کو سرخ رنگ سے نہاے جارہے تھے، اب بظاہر اس بادشاہ کے پاس تین راستے تھے۔

پہلا میدان چھوڑ کر پہلے کی طرح فرار ہوجاتا، دوسرا ہتیار ڈالتے ہوئے خود کو مخالف فوج کے حوالے کر دیتا اور آخری لڑتے لڑتے اپنے مٹھی بھر ساتھیوں سمیت مرجاتا، لیکن اس بادشاہ نے ایک اور راستہ چنا وہ یہ کہ فوراً اپنے سینے سے کپڑا اتارنے کے بعد ننگے سینے کے ساتھ مدمقابل فوج کے سامنے کھڑا ہو کر کہنے لگا_

” تم میں سے کون اپنے باپ کے ننگے سینے پر گولی چلائیں گا”

اپنے پرانے بادشاہ کی اس بات کا اثر کچھ یوں ہوا کہ

دوسری طرف سے سب سپاہی فوراً روک گے اور شرم سے نظریں نیچے کئے ہوئے سب کی زبان سے ایک ہی آواز گونجنے لگی، کوئی بھی نہیں، کوئی بھی نہیں، اور پھر سب فرانس کے سپاہی اپنے سالار کے جھنڈے کو چھوڑ کر اپنے پورانے بادشاہ کے جھنڈے تلے جمع ہو جاتے ہیں اور وہ بادشاہ ایک ہاری ہوئی بازی اپنے دماغ کے تھوڑے سے استعمال کے ذریعے فرانس جیسی سلطنت کو جیت جاتا ہے۔

ایک بار اسی بادشاہ نے بڑا ہی خوبصورت سوال لوگوں سے پوچھا کہ

” کیا تم جانتے ہو کہ دنیا کے بارے میں کیا چیز مجھے سب سے زیادہ تعجب میں ڈالتی ہے ؟

جب کسی نے جواب نہ دیا تو پھر خود ہی جواب دیتے ہوئے کہنے لگا کہ وہ چیز طاقت کی بے بسی ہے کہ صرف اس کے ذریعے کسی بھی چیز کو حاصل نہیں کیا جاسکتا ہے اور بالآخر ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ دماغ تلوار کو فتح کر لیتا ہے۔

فرانس کے اس شہنشاہ اور عظیم سپاہ سالار کا نام تاریخ کے اوراق میں نپولین بوناپارٹ سے درج ہے۔

اے عزیز! دماغ آپ کا غلام ہے مگر اس کا درست استعمال آپ کو بادشاہ بنا سکتا ہے۔

خدا تعالیٰ نے ہمارے دماغ کو جسم کی بلندی پر اس وجہ سے رکھا ہے، کیونکہ اس کا تعلق بلندیوں سے ہے۔

دماغ ہمارے جسم کے تمام اعضاء پر حاکم کی حیثیت رکھتا ہے، جبکہ باقی تمام اعضاء محکوم ہیں، جس طرح ایک حاکم کا ترز عمل اور احکامات پوری ریاست کو بناتے اور بیگاڑتے ہیں، ٹھیک اسطرح دماغ کے فیصلے بھی پورے انسانی جسم پر لاگوں ہوتے ہیں اور کامیابی اور ناکامی میں اپنا کلیدی کردار ادا کرتے ہوتے ہیں۔

انسان وقت کے ساتھ تبدیل ہوتا ہے اور اسی میں ہی انسانیت کی بقاء کا راز پوشیدہ ہے اور وقت کے ساتھ چیزوں کے بارے میں مزید سیکھتے اور جانتے ہوئے بہتر سے بہترین کی طرف گامزن رہتا ہے، اسی میں ہی ترقی کا راز پوشیدہ ہے اور باقی جاندار چیزیں عقلی طور پر محروم ہونے کی وجہ سے اس عمل سے قاصر ہیں، جبکہ میٹریل چیزوں کا وجود جامد ہوتا ہے اور یہی چیزیں انسان میں اور دوسری دنیا جہاں کی تمام چیزوں میں فرق کرتی ہے اور یہ سب دماغ کی وجہ سے ہے۔

اللہ تعالیٰ نے دنیا کی تمام مخلوقات کو بہت بڑی بڑی خوبیوں سے نوازا، جیسا کہ مچھلی تیراکی میں اپنا ثانی نہیں رکھتی، شیر تیز رفتاری اور طاقت میں اپنا کوئی ہمسر نہیں رکھتا، شاہین کی اس روح زمین پر تیز نظروں کی نظیر نہیں ملتی ہے، ہاتھی کی جسامت کے سامنے انسان ہیچ سا بن کر رہ جاتا ہے، جانوروں اور پرندوں کو کچھ یوں نوازنے کے ساتھ ساتھ خدا تعالیٰ نے پرندوں کو اڑنے کے فن کا اعزاز بھی دیا ہے، یعنی ان سب کے سامنے انسان فطری طور پر بہت ہی کمزور اور لاچار ہے، اس کے علاوہ باری تعالیٰ نے لوہے کو زمین میں رکھا مگر مشین کی شکل نہیں دی، لکڑی کو درختوں کی صورت میں چھوڑ دیا، تیل، گیس، سونا چاندی اور دوسری قیمتی چیزیں زمین میں رکھ کر اوپر ایک مٹی کا غلاف ڈال دیا۔

اب انسان جو اتنا کمزور تھا، اس کو ایک ایسی بظاہر چھوٹی مگر دنیا کی بڑی نعمتوں میں سے سب سے بڑی نعمت سے نوازا، جس کی وجہ سے انسان پوری کائنات کی چیزوں پر اپنی برتری کی دھاک بٹھانے کے ساتھ ساتھ یہ سب چیزیں انسان کی غلام بن کر رہ گئی، جس کے استعمال سے انسان نے جیتے سے سو گناہ تیز رفتار گاڑیاں بنا ڈالی، پرندوں سے کروڑوں گناہ بہترین اڑنے والے ہوئی جہاز بنا ڈالے، زمین کو چیر کر سونا، لوہا، گیس، تیل اور دوسری قیمتی معدنیات نا صرف نکالی بلکہ خوب سے خوب تر استعمال میں بھی لایا۔

آج تمام کائنات انسان کے تابع ہے، تو صرف اور صرف دماغ کی وجہ سے، آج دنیا کی ساری ترقی، کامیابیاں، علم و ادب اور اے دن کی نئی نئی ایجادات سب دماغ کی مرہون منت ہیں۔

اس کائنات میں خدا تعالیٰ نے دو خفیہ جگہوں پر خزانوں کی بھر مار رکھی ہے، ایک زمین کے اندر دوسرا انسانی دماغ میں اور دنیا کو سب سے زیادہ جس خزانہ نے نوازا وہ انسانی دماغ ہے، اور ازل سے ہی زمینی خزانے اپنے وجود کی شناخت کے لیے انسانی دماغ کے محتاج رہے ہیں۔

دماغ کی طاقت کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کے استعمال کرنے کی کمی ہے اور جس کی وجہ سے اس قدر بڑی طاقت کے ہونے کے باوجود بھی لوگوں کو وہ ثمرات کبھی حاصل نہیں ہوتے ہے جو کچھ دماغ کے استعمال کے زیادہ سے زیادہ کرنے سے حاصل کئے جاسکتے ہیں۔

کامیابی یا ناکامی کا حصول آپ کے دماغ کی سوچ ہے، اگر آپ کے دماغ میں کامیاب ہونے کی پختہ سوچ ہے اور آپ اس کے حصول کے لیے لگے ہوئے ہیں، تو پھر بہت جلد یا بدیر آپ اس کو پا لے گئے، آپ کا دماغ خزانہ کی کودان سے کم نہیں ہے، آپ کو اس میں ہر چیز ملے گی یہ اللہ دین کے چراخ سے بھی زیادہ آپ کو نوازے گا مگر آپ کو اس دماغ کا استعمال کرتے ہوئے چیزوں پر مکمل توجہ کے ساتھ ساتھ ان پر غور وفکر کرنی ہوگئی اور کوئی بھی کام عقل کے ترازو سے تولے بغیر سر انجام نہیں دے گے اور یہی کامیاب لوگ کرتے ہیں اور جبکہ ناکام لوگ نہیں کرتے۔

ناکام لوگ کامیاب لوگوں کی نسبت خود کو عقلی طور پر کمزور اور کمتر سمجتھے ہوئے کامیابی کی حصول کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں، مگر ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ ان کے اندازے کے مطابق انسان کا دماغ پیدائشی طور پر جن صلاحیتوں کا مالک ہوتا ہے، ان کا دس فیصد بھی لوگ استعمال میں نہیں لاتے ہیں، البرٹ آئنسٹائن دنیا کے کامیاب ترین سائنسدانوں کی صف اول میں کھڑے ہوئے پائے جاتے ہیں، انہونے اپنے دماغ کی صلاحیتوں کا پندرہ فیصد سے کم استعمال میں لایا تھا اور جبکہ خود آئنسٹائن کی زمانہ طالب علمی میں حالت کچھ یوں تھی کہ تین سال کی عمر تک بولنا شروع نہیں کیا تھا، وہ سکول میں اتنا نکمے تھے کہ ایک بار استاد نے کہا کہ البرٹ ایک سست کتا ہے، وہ شخص آج سائنسدانوں کی دنیا کا امام کہلاتاہے، اسی طرح ونسٹن چرچل طالب علمی کے زمانے میں اکثر سبق یاد نہ ہونے کی وجہ سے کلاس میں سزا کے طور پر پیچھے کھڑا ملتا تھا، مگر دوسری جنگ عظیم دوئم میں جرمنی کی شکست کے پیچھے اس کی ہی مدبرانہ سوچ تھی، اور ایک وقت میں پوری دنیا کی سیاست چرچل کے گرد گھومتی ہوئی پائی جاتی تھی، اگر ان اشخاص کا دنیا میں نہ آنا ہوتا تو سائنس اور سیاست یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ دنیا کی تاریخ آج کچھ مختلف ہوتی۔

ہمیں غلط سوچ دے دی گئی ہے کہ کامیاب لوگ تو ذہنوں ؤ فطین ہوتے ہیں اور ہم بھلا ان جیسے کیسے ہوسکتے ہیں ؟ ماروثی طور پر کچھ لوگ کچھ کی نسبت عقلی طور پر زیادہ اچھے ہوسکتے ہیں مگر ان کے لیے بھی یہ کسی کام کا اس وقت تک نہیں جب تک اس کا بہترین استعمال نہ کیا جائے،

بل گیٹس جو پندرہ سال تک دنیا کا امیر ترین شخص بنا رہا تعلیم کے دوران اچھا نہ ہونے کی وجہ سے تعلیمی ادارے نے نکال باہر کر دیا تھا، تھامس ایڈیسن دنیا کی سب سے زیادہ ایجادات جس سائنس دان نے کی اس کو اپنے اسکول سے کم عقل ہونے کے سرٹیفکیٹ سے نوازتے ہوئے نکال باہر کر دیا گیا تھا، ڈاکٹر عبد القدیر اپنے تعلیمی دور میں ہمیشہ ایک کمزور طالب علم رہے تھے، لوئیس پاسچر کے ایک استاد نے لکھا تھا کہ لوئیس درمیانے درجے کا طالب علم ہے، علامہ اقبال مقابلے کے امتحان میں فیل ہو گئے تھے، دنیا کا سب سے بڑا ادبی مصنف لیو ٹالسٹائی جس کی زندگی اور نظریات پر 23000 کتابیں اور اس سے دوگنے مضامین اس پر لکھے جاچکے ہیں ابھی اور پتہ نہیں کتنے لکھے جائے گے ؟

کالج میں فیل ہو گئے تھے، یہ سب ایسے لوگ ہیں جو اپنے اپنے شعبوں میں ایسا عروج حاصل کیا کہ اپنا آج کوئی ثانی نہیں رکھتے ہیں، یہ سب ایک وقت میں اپنے ہم عصروں کے مقابلے میں کم عقل ہونے کے باوجود بھی ایسا عروج حاصل کیا جس کی دنیا میں نظیر نہیں ملتی، بس ان سب نے اپنے دماغوں کو خوب سے خوب تر استعمال کیا اور ہمارے لیے سبق چھوڑ گئے خدا تعالیٰ نے آپ کے دماغ میں ایسی طاقت رکھی ہے کہ آپ بہت کچھ تخلیق کر سکتے ہیں اور اپنی دنیا خود سے تخلیق کرنی پڑتی ہے، جیسے موجودہ وقت میں مارک زکر برگ، جیک ما اور ایلان ماسک جنہونے دماغ کا استعمال کرتے ہوئے اپنی ایک لازوال سلطنتیں کھڑی کر دی اور آپ اپنی پسندیدہ زندگی تخلیق کرنے سے قاصر ہیں۔

آج تک دنیا میں کوئی ایسا شخص نہیں آیا جو اس کا استعمال کیا ہو اور پھر گمنام ہوکر رہ گیا ہو، سٹیفن ہاکنگ جنہیں چلنے کے لیے ویل چیئر اور بولنے کے لیے پلکوں کے ساتھ وائس سنتھیائزر کا استعمال کرنا پڑتا تھا، اسے دنیا نے اپنے آنکھوں پر بٹھایا اور اتنا پیار دیا جس کی انتہا نہیں تھی، صرف اور صرف اس وجہ سے کیونکہ سٹیفن نے اپنی تمام خامیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی ایک بہترین خوبی دماغ جو صرف وہی سلامت تھا باقی سارا جسم مفلوج ہونے کے باوجود اس کو استعمال میں لاتے ہوئے اپنے تمام سوالات کے خود جوابات ڈھنڈے اور دنیا کو ایک خوبصورت سبق دے گیا کہ ۔

جو لوگ اپنے دماغ کی طاقت کو درست سمت میں استعمال کرنے کا راز جان گئے وہ کامیابی کا راز جان گئے۔

آج کی دنیا دماغ کا درست استعمال کرنے والوں کی دنیا ہے اور جو اس کا استعمال درست سمت میں کرنا جانتے ہیں وہ اپنے شعبے میں کامیاب کہلاتے ہیں۔

آپ جیسے نام، شکل، جسامت اور رنگوں روپ رکھنے والے دنیا بھر میں کروڑوں لوگ پائے جاتے ہیں، اگر کوئی چیز آپ کو دوسروں سے جدا اور ممتاز کرتی ہے وہ آپ کے دماغ میں موجود سوچ اور دوسرا صلاحیتیں ہیں، آپ جو کچھ بھی چاہتے ہیں وہ آپ کو اپنے اندر سے ملے گا، آپ کے اندر صلاحیتوں کا امبار لگا ہوا ہے، جو صلاحیتیں آپ کے پاس ہے وہ کسی اور پاس نہیں ہیں، آپ اپنے اندر جھانکے اور اپنے آپ سے ملے، آپ کے اندر وقت کا بہت بڑا مفکر، ادیب، سائنسدان، آرٹسٹ اور قائد بیٹھا ملے گا، آپ کو ان چیزوں کے بارے میں غور وفکر کرتے ہوئے جاننا ہوگا، اپنی ان صلاحیتوں کو نکھارنا ہوگا، لیکن یہ تب ہوگا جب آپ اپنے اندر بیٹھے مخلص دوست سے ملو گے، خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں سات سو سے زیادہ جگھوں پر فرمایا غور وفکر کروں، دنیا میں جتنا بھی عظیم ہستیاں آئی سب میں ایک مشترکہ چیز غور وفکر کرنے کی عادت پائی جاتی تھی۔

مگر روز اول سے لاکھوں کروڑوں لوگ بغیر کچھ زندگی میں نام کئے ناکام ہوکر مڑ جاتے رہے، اور دنیا جہاں کے گلی کوچوں میں کامیابی کا راز ڈھڈتے پھرتے رہے اور کچھ لمحوں کے لیے بھی اپنے اندر جھانکنا تک گوارا نہیں کیا، لاکھوں کروڑوں سائنسدان، فلاسفرز، آرٹسٹ، لیڈر اور ادیب کچھ دنیا کو دیئے بغیر موت کی نیند سو جاتے رہے ہیں، دنیا میں ہر چیز اپنے کردار کے بارے میں ہمیشہ سے اچھی طرح سے جانتی ہے، مگر افسوس نہیں جانتا تو انسان جس کے پاس دماغ جیسی طاقت کے ہونے کی وجہ سے تمام مخلوقات پر فضیلت حاصل ہے۔

دماغ والوں کی ہمیشہ سے دنیا میں مانگ رہی ہے، جتنا دنیا نے دماغ کے استعمال کرنے والوں کو نوازا ہے کسی اور کو نہیں نوازا، بس خود کی صلاحیتوں کو سنوار لو دنیا خود بخود خوبصورت ملے گی، دنیا تب آپ کی قدر دان ہوگئی جب آپ خود کے قدر دان بنو گے۔

آپ یہ نہ سوچے دنیا نے مجھے کیا دیا، آپ یہ سوچے کہ میں دنیا کو کیا ایسا مختلف دے کر دنیا سے وہ سب کچھ حاصل کر سکتا ہوں جو مجھے چاہیے اور یہ آپ کر سکتے ہیں، جب آپ دنیا کو کچھ دو گئے تو بدلے میں بہت کچھ پاؤ گے، دنیا میں ہمیشہ سے لوگ ایک ہاتھ سے دو دوسرے سے لو والے اصول پر عمل پیرا رہے ہے اور یہ دنیا کی ایک حقیقت ہے۔