ایک کہانی جو میں نے اپنے بڑوں سے سنی جوکہ میری زندگی کے سب سے بڑے اسباق میں سے ایک بہترین سبق کے طور پر مجھے بہت کچھ سیکھایا ہے اور یہ کہانی جتنا بھی پرانی کیوں نہ ہو لیکن آج کے ہمارے اس معاشرے پر پوری اترتی ہے۔

کہنے والا کہہ گیا ہے کہ احمقوں کی ریاست کا عظیم بادشاہ اپنے چند سپاہیوں کے ساتھ جنگل میں شکار کرنے کیلئے نکلا ہوا تھا کہ بادشاہ کی نظر ایک خوبصورت نسوانی حسن کی دیوی جیسی لڑکی پر پڑتی ہے جو اسی جنگل میں ہی لکڑیاں جمع کر کے اپنی گدھی پر ڈالنے میں لگی ہوتی ہے، بادشاہ اسے دیکھتے ہی فوراً اپنا دل ہاڑ بیٹھتا ہے اور کچھ سپاہیوں کو اس لڑکی کے بارے میں معلومات لینے کیلئے وہی چھوڑ کر باقی سپاہیوں کے ساتھ آگے کو چل دیتا ہے۔ دوسرے دن معلومات کے ملنے پر بادشاہ کو پتا چلتا ہے کہ وہ ایک فقیر کی بیٹی ہے تو بادشاہ اس لڑکی کے ماں باپ کو کچھ پیسے اور سازو سامان دے کر اس سے شادی کر لیتا ہے اور خود کو بدنامی سے بچانے کیلئے سسرال والوں کو محل کی طرف رخ کرنے سے سختی سے منع کرتے ہوے کہتا ہے کہ اگر کچھ بھی آپ لوگوں کو چاہیے یا پھر کوئی بات ہو تو ہر مہینے خرچ دینے کے لیے آنے والے شخص کو پیغام بھیج دینا، مگر خود محل کی طرف بھول کر بھی رخ نہ کرنا۔ غریب ماں باپ بیٹی کی خوشی کے لیے نا چاہتے ہوئے بھی بادشاہ کو ہاں کر دیتے ہیں، کچھ عرصہ گزرنے کے بعد گھر والوں کی طرف سے ملکہ کو پیغام آتا ہے کہ اپنی پیاری جمالا بی بی فوت ہوگئی ہے۔ اس ریاست میں ایک قانون تھا وہ یہ کہ جب بھی شاہی خاندان کا کوئی فرد فوت ہوتا تو پوری کی پوری ریاست کی عوام گنجی ہوکر شاہی خاندان کے ساتھ برابر تین دن تک غم میں شریک ہوکر سوگ مناتی۔ جب شاہی خاندان سے لوگوں کو خبر ملی کہ جمالا بی بی فوت ہوگئی، تو پوری ریاست کی عوام نے نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ

استروں کو اٹھا کر تیز دھار کرنے کے بعد گنجے ہونا شروع ہوگئے اور ایک ہی دن میں پوری کی پوری ریاست گنجی ہوکر بیٹھ گئی۔ ریاست کے چاروں اطراف جمالا بی بی کے بارے میں عجیب و غریب قسم کی مرچ مصالحہ کے ساتھ کہانیاں پیش ہونے لگئی جتنا منہ اتنا کہانیاں اور کچھ تو دربار میں کام کرنے والے مرد اپنا رتبہ لوگوں کے سامنے بڑا کرنے کے لیے کہنے لگے وہ ہمیں اپنا بھائی کہتی اور جبکہ عورتیں بڑے بڑے آنسو آنکھوں سے ٹپکاتے ہوئے کہتی کہ وہ تو ہمیں اپنی قریبی بہنوں جیسی سہیلی سمجھتی اور کوئی بھی کام ہمارے بغیر انجام ہی نہیں دیتی ہوتی، ہمارے درمیان پیار ایسا کہ ہم ایک ساتھ ایک ہی تھالی میں کئی بار اکھٹے بیٹھ کر کھانا تک بھی کھایا تھا۔

پوری ریاست میں ہر طرف سوگ منایا جانے لگا اور ساتھ ہی ساتھ مسجدوں کے مولوی حضرات، مندروں کے پوجاری صاحبان اور چرچوں کے فادرز جمالا بی بی کیلئے صبح وشام مغفرت کی دعائیں کرنے لگے، سستے شاعر جمالا بی بی کی خوبصورتی پر نظمیں اور غزلیں گانے لگے، عاشق مزاج لوگ اس کو پریوں کی رانی اور اپنے خوابوں کی ملکہ قرار دیتے ہوئے اس کی اچانک موت کے ہونے سے دکھ سے نیڈھال ہو جاتے ہوتے، وزیر اور مشیران عوام میں اس کی موت کو ناقابلِ تلافی ریاست کا نقصان قرار دے دیا تھا، غرض ہر شخص اپنے اپنے ہنر کے مطابق جمالا بی بی کی عظمت کو خراجِ تحسین پیش کرہا تھا۔

اس ریاست کا ایک وزیر جو کسی دوسری ریاست میں سرکاری دورے پر باہر کو گیا ہوا تھا، واپس آیا تو کیا دیکھتا ہے کہ ریاست کے صدر دروازے پر استقبال کے لئے اے ہوئے سپاہی سمیت کوتوال گنجا ہوا کھڑا ہے، رسمی سلام دعا کے بعد جب وزیر کوتوال سے پوچھتا ہے کہ بھائی بادشاہ سلامت کا کون سا رشتے دار فوت ہو گیا ہے ؟

تو کوتوال غمگین سا منہ بناتے ہوئے کہا جناب جمالا بی بی، تو وزیر نے یہ سن کر کہا بہت افسوس ہوا مگر اس کا بادشاہ سلامت کے ساتھ رشتہِ کیا تھا ؟

تو کوتوال نے کہا جناب ہم جیسے نوکر لوگوں کو کیا پتا، بس ہمیں تو جیسے ہی شاہی دربار سے خبر ملی تو پھر ہم نے بغیر دیر کیے کے کہیں پھر حجام کے پاس وقت ہی نہ ملے بال کٹوانے کی دوڑ میں لگ گئے، جب وزیر وہاں سے گورنر ہاؤس پہنچا تو وہاں پر بھی گورنر سمیت استقبال کے لئے آیا ہوا تمام عملہ گنجا ہوا کھڑا تھا، گورنر سے سلام دعا کرنے کے بعد اس سے بھی وزیر نے وہی سوال پوچھا کہ جناب یہ جمالا بی بی بادشاہ سلامت کی کیا لگتی تھی ؟ کیونکہ ابھی مجھے بادشاہ سلامت سے جاکر تعزیت بھی کرنی ہے، تو گورنر نے کہا جناب ہمیں تو کوئی خبر نہیں، بس شاہی خاندان سے خبر آئی تو پھر ہم رسموں رواج کے عین مطابق گنجے ہونا شروع ہوگئے، اب وزیر بڑا پریشان ہوا کہ اب جا کر بادشاہ کو کیا کہو گا تعزیت کے لیے۔ جب بادشاہ کی دربار میں حاضر ہوا تو کچھ دیر کی بات چیت ہونے کے بعد وزیر غمگین چہرے کے ساتھ بڑا سا منہ بناتے ہوئے سسکیوں کے ساتھ بادشاہ سلامت بہت افسوس ہوا تو اس پر بادشاہ وزیر سے بھی بڑا منہ بناتے ہوئے فوراً آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگا،

کچھ وقت گزرنے اور وزیر کے ترسلی دینے پر جب کچھ غم کم ہوا تو وزیر نے ڈرتے ڈرتے پوچھا جناب گستاخی معاف یہ بتائی کہ جمالا بی بی آخر تھی کون ؟

کیوں کہ میں نے جس کسی سے بھی پوچھا اس کا ایک ہی جواب تھا اور وہ یہ کہ مجھے تو پتا نہیں، تو اس پر بادشاہ پریشانی سے منہ ٹھیک کرتے ہوئے کہا پتا تو مجھے بھی نہیں، وزیر جواب سن کر حیران ہوگیا اور کہنے لگا جناب ساری ریاست گنجی ہوئی پڑی ہے لیکن آپ کو پتہ ہی نہیں، تو بادشاہ نے کہا کہ اصل میں وہ میری بیگم کی کوئی دور کی رشتے دار تھی۔ بادشاہ ملاقات سے فارغ ہوکر بیگم کے پاس گیا اور کہنے لگا خدا بھلا کرے تیرا، آج تو میں وزیر کے سامنے بڑا ہی شرم سار ہوا ہو، مجھے یہ تو بتاؤں آخر یہ جمالا بی بی آپ کی رشتے میں لگتی کیا تھی ؟

بیگم فوراً چونک کر کہا اللہ نہ کرے وہ تو میری گدھی تھی جس پر میں جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لاتی تھی اور میرے ماں باپ اسے پیار سے جمالا بی بی کہتے تھے۔

ٹھیک ایسے ہی آج ہمارے معاشرے میں کروڑوں لوگ ہیں جو گھوڑوں اور کندھوں جیسی چیزوں کے پیچھے بھاگتے ہوئے پائے جاتے ہیں اور ان کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ ہم کہا جارہے ہیں، ایسے لوگ جو بغیر سوچے سمجھے کچھ بھی فوراً مان لیتے ہوتے ہے ان کے ساتھ بھی کچھ اس سے مختلف نہیں ہوتا ہے۔

آج کے دور میں معلومات کا ملنا جتنا آسان ہے اس سے کئی گناہ مشکل کام معلومات کے درست اور غلط میں فرق کرنا ہے، کسی بھی چیز پر یقین سے پہلے اسے جاننا ضروری ہے اور جب آپ کسی چیز کو جانے بغیر مان لیتے ہیں تو پھر آپ گمراہ ہو جاتے ہیں اور جاننے کے لیے ضروری ہے تحقیق کے ساتھ اس پر غور وفکر کریں۔

اکثر جب غور وفکر کا عمل نہیں ہوتا تو پھر ایسے لوگ ہمیشہ دوسروں کے پیچھے گمراہی کا شکار ہو کر رہ جاتے ہے اور ان کا دماغ ایسے معاشرے کی باتوں میں الجھا رہتا ہے جیسے کانٹوں کے ڈھیر میں آدمی کا دامن۔