زندگی کبھی کسی کے ساتھ غیر منصف نہیں ہوتی، یہ ہم ہی ہوتے ہیں جو زندگی کے ساتھ غیر منصفانہ رویہ رکھتے ہے، جس کی وجہ سے پھر زندگی ہمارے کیے کا پھل ہمیں ناکامی کی صورت میں کہلاتی ہے۔

 

دو دوست پانی کے چشمے کے کنارے پر بیٹھے مستقبل کے بارے میں باتیں کرہے تھے، ان میں سے ایک دوست نے کہا کہ پتا نہیں ہمارا مستقبل کیسا ہوگا ؟

اگر ہر شخص کو اپنے مستقبل کا پہلے سے ہی علم ہوتا تو کیا ہی بات ہوتی، تو اس پر دوسرے دوست نے پانی میں اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ کس کا عکس ہے ؟ تو پہلے والے دوست نے عکس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ میرا، تو دوسرے دوست نے پوچھا کہ یہ آپ کیسے کہہ سکتے ہے ؟ تو پہلے والے نے جواب دیا آپ عجیب بات کرتے ہوں، میں نابینا تھوڑی نہ ہو روزنہ دن میں کئی بار تو اپنی شکل آئینے میں دیکھتا ہوں، تو دوسرے دوست نے کہا ٹھیک اسی طرح صرف عقل کے اندھوں کو ہی اپنا مستقبل دیکھائی نہیں دیتا ہے۔ اگر آپ کو اپنا آنے والا کل دیکھنا ہو تو اپنا آج دیکھوں، اگر آپ چاہتے ہو کہ میرا آنے والا کل آج سے مختلف ہو تو پھر اپنے آج کو اس شکل میں تبدیل کر لو جس طرح تم اپنے آنے والے کل سے ملنا چاہتے ہوں، یہ کام مشکل ضرور ہوگا مگر آپ ویسی ہی زندگی حاصل کرلوں گئے جیسا کہ آپ اپنے آپ کو آنے والے وقت میں دیکھنا چاہتے ہوں، اور وہ خوبصورت آنے والا کل بہت جلد ایک دن آج کی شکل اختیار کر لے گا۔

 برنارڈ شا انگریزی ادب میں ایک اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو بطور آنے والے وقت کا ادیب دیکھنا چاہتے تھے۔ مگر غربت کی وجہ سے دفتروں میں تھوڑے بہت پیسوں کے عوض کام کرنے پر مجبور تھے، لیکن ساتھ ہی وہ ان دفتری کاموں سے نا پسندیدگی کی وجہ سے انتہائی حد تک نفرت بھی کرتے ہوتے تھے۔

 اپنے آپ کو مستقبل کا ادیب دیکھنے کی چاہت میں عمر کی بیسویں بہار سے کچھ عرصہ پہلے آپ نے فیصلہ کیا کہ ” زندگی فقط ایک دفعہ حاصل ہوتی ہے، میں اسے دفتری الجھنوں کا ہرگز شکار نہ ہونے دو گا” پھر وہ اپنے ہر دن کو ویسے سنوارنے لگے، جس طرح وہ اپنے آنے والے کل سے ملنے کی خواہش رکھتے تھے، دس سال تک گمنامی کی زندگی گزارتے رہے، ہمیشہ کپڑے پٹھے پرانے اور کئی کئی پیوند لگے پہنے رہتے اور جوتے جنہیں سوراخ ہوتے اور ایک چھوٹے سے عجیب و غریب کوڑا کرکٹ سے بھرے گندے سے کمرے میں اتنی بڑی شخصیت کئی سالوں تک اپنے خوبصورت آنے والے کل سے ملنے کی تیاری میں لگی رہی یہاں تک کہ ایک وقت آیا جب ادب کی خدمت کے عوض نوبل پرائز دینے کیلئے لوگ آپ کے پیچھے باگ رہے تھے کہ اس نوبل پرائز کو لے کر اسے شرف بخش دے۔

 یہ اتنا بڑا اعزاز تب حاصل ہوا جب انہونے اپنے موجودہ وقت کو ویسے ڈھالا جیسے وہ آنے والے کل میں اپنے آپ کو دیکھنا چاہتے تھے۔

اے جانِ من! ہمارا گزارا ہوا کل ہمارے آج کا آئینہ ہے اور آج آنے والے کل کا آئینہ ہوگا یہ ہو نہیں سکتا آج ہم کچھ کریں اور اس کا صلح آنے والے کل میں نہ ملے، گزرے ہوئے کل میں جو بوتے ہے آنے والے وقت میں وہی کاٹتے ہے اور یہ قدرت کا قانون ہے۔

انسان اپنی حال کی کتاب پر عمل کی پینسل سے جو کچھ بھی لکھتا جاتا ہے وہی کچھ مستقبل کی صورت میں انسان کے نصیب کی شکل اختیار کرلیتا ہوتا ہے، دنیا نصیب سے ضرور بنتی ہوگئی لیکن نصیب عمل سے بنتے ہیں، اور آپ کے ویسے ہی قدرت کے ہاں نصیب لکھے جاتے ہیں جیسے کہ آپ کے اعمال ہوتے ہیں، دنیا میں کوئی بھی ایسا شخص نہیں ملے گا جس کے نصیب اس کے اعمال سے متضاد ہو اور اگر ایسا ہوتا تو یقیناً یہ فطرت کی بہت بڑی غلطی ہوتی جوکہ حقیقت میں فطرت غلطیوں سے پاک ہے۔

اگر زندگی کی کتاب عمل سے عبارت ہو تو پھر زندگی کی صورت وہی ہوگئی جو آپ چاہتے ہے اور اگر زندگی کی کتاب عمل کی عبارت سے خالی ہو تو پھر زندگی کی شکل وہ ہوتی ہے جو وقت خود سے طے کرتا ہوتا ہے۔

آپ کا آج سفید کاغذ کی طرح ہے اور زندگی آپ کے ہاتھوں میں قلم سی اور آپ کا عمل اس قلم کی سیاہی، آپ جو بھی تحریر آج حال کے کاغذ پر لکھتے ہے وہی مستقبل میں حقیقت کی صورت میں آپ کو دیکھنے کو ملے گئی اور اس تحریر سے نہ ہی ایک لفظ زیادہ اور نہ ہی کم ہوگا تو اس وجہ سے کل کو زندگی کو غیر منصف کہنے کی بجائے آج قلم آپ کے ہاتھوں میں ہے اور اس پر وہی تحریر لکھیں جو آپ آنے والے کل کو حقیقت کی صورت میں دیکھنا چاہتے ہے اور اگر آپ اپنی آج کی زندگی سے خوش نہیں تو ماضی میں خود کے ساتھ غیر مخلص رہے ہوگئے تبھی تو وہ کچھ لکھا جو کچھ آج کی صورت میں حقیقت کا وجود رکھتا ہے۔

ہمارا مستقبل وہ نہیں جوکہ ہم سوچتے ہیں بلکہ ہمارا مستقبل وہ ہے جو کچھ ہم حال میں رہتے ہوئے عمل کرتے ہیں، لوگ خواب تو اڑنے کے دیکھتے ہوتے ہیں لیکن عملی طور پر اپنی کاہل طبیعت کی وجہ سے چلنے تک سے کتراتے ہوتے ہے اور پھر زندگی کی صورت بھی اس سے ہرگز مختلف نہیں ہوتی ہے۔

 مستقبل کی اہمیت ایک وقت کی ہے جوکہ آپ کے حال کے عمل سے جڑا ہوا ہے اور آپ کے ہر چھوٹے بڑے عمل کے اثرات بلواسطہ یا بلاواسط اس پر ضرور ہوتے ہیں، اگر آپ اسے مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہے تو یہ حماقت ہے لیکن اگر آپ اسے ہی سب کچھ خیال کرتے ہوئے اسی میں رہنے لگتے ہوتے ہے تو یہ اس سے بھی بڑی حماقت ہوگئی۔

ہمارے حال کا دشمن مستقبل ہے یا پھر مستقبل کا دشمن حال ہے، کچھ لوگوں کا مستقبل ان کے حال کو کھا جاتا ہے اور کچھ کے حال کے اعمال ان کے مستقبل کو مسخ کر دیتے ہوتے ہیں۔

مستقبل ایک وقت ہے جو زندگی سے دو قدم آگے کی جانب کھڑا ملتا ہے جبکہ ماضی جو زندگی سے دو قدم پیچھے کو گزر چکا ہے اور حال ان دونوں کے درمیان میں زندگی ہے۔

ماضی کا وجود انسان کیلئے نصحیت کا ہوتا ہے جبکہ حال جو زندگی ہے اس میں کسی بھی عمل کو انجام دیتے ہوئے وہ چاہیے قوم ہو یا پھر فرد جو جس قدر زیادہ سے زیادہ ماضی کی نصحیت سے سبق لیتے ہوئے اسے اہمیت دیتا ہوتا ہے وہ اتنا ہی زیادہ سے زیادہ مستقبل کو خود کے حق میں محفوظ پاتا ہوتا ہے۔

مستقبل اور ماضی دونوں ہی انسان کا وقت ہیں، ایک آنے والا جبکہ دوسرا جوکہ گزر چکا ہے لیکن حال زندگی ہے، لوگوں کی ایک بڑی اکثریت وقت اور زندگی کا فرق نہ سمجھنے یا پھر ان لوگوں کیلئے وقت کے معنی ہی زندگی کے ہونے کی وجہ سے وہ وقت کو جی رہے ہوتے ہیں زندگی کو خوبصورت بنانے کیلئے جبکہ خود زندگی کو جو حال ہے اسے گزار رہے ہوتے ہیں وقت کی طرح۔

وقت ہی زندگی ہے یہ ایک فلسفہ ہے ٹھیک ایسے ہی کہ وقت کسی کا نہیں ہوتا ہے، یہ بھی ایک فلسفہ ہے، ایک اور فلسفہ کے وقت بڑا ظالم ہوتا ہے یہ سب دنیا کے ایسے فلسفے ہے جن کا تقریباً کوئی سر پیر ہی نہیں ہیں۔

جو لوگ اس فلسفے پر کہ وقت اور زندگی کے ایک ہی معنی ہے یقین رکھتے ہوتے ہیں تو ان کو سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ وہ زندگی سے دور ہو جاتے ہے جبکہ وقت کے قریب رہتے ہوتے ہیں اور اسطرح ان کی زندگی گزارنے کے طریقے اور مشینوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا ہے، وقت اور زندگی کو ایک خیال کرنے کے فلسفے کے موضوع پر پھر کبھی تفصیل سے بات کریں گئے جبکہ آج ہمارا موضوع کچھ اور ہے۔

زندگی کبھی بھی ہمیں منتخب نہیں کرتی ہوتی بلکہ یہ ہم ہی ہوتے ہے جو اپنے عمل سے زندگی کا انتخاب کرتے ہوتے ہے کہ ہمیں زندگی سے کیا چاہیے ؟

 لیکن ہم جب اپنے عمل کی کمزوریوں کی وجہ سے اپنا یہ حق استعمال نہیں کرتے ہوتے ہے تو پھر زندگی کی منتخب کردہ راہوں پر چلنا ناگزیر سا ہوکر رہ جاتا ہوتا ہے۔

جس طرح پانی کو بہنے کیلئے ایک مظبوط راستے کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر اسے راستہ نہ دیا جائے یا پھر راستہ ہی کمزور ہو تو پھر وہ کہیں سے کہیں نکل جاتا ہوتا ہے ٹھیک ایسے ہی زندگی کو ایک راستے پر مظبوط عمل سے خود سے صورت دینی پڑتی ہوتی ہے نہیں تو پھر یہ خود سے ہی پانی کی طرح حالات کے تابع رہتے ہوئے انسان کو ایک ان چاہی جگہ پر لا کر پٹخ دیتی ہوتی ہے۔

 لوگ زندگی کو خود کا مجرم خیال کرتے ہوتے ہیں لیکن حقیقت تو یہ ہے جب زندگی موقع دیتی ہوتی ہے اس وقت یہ لوگ موقع سے فائدہ اٹھانے کی بجائے اسے ضائع کر دیتے ہوتے ہیں جبکہ زندگی نے چلنا ہی ہوتا ہے وقت کے ساتھ ساتھ جوکہ چلتی رہتی ہے۔

 لوگوں کے ہاں زندگی کے وہی معنی ہوتے ہیں جو کچھ وہ زندگی میں اپنے انتخاب کردہ عمل کی وجہ سے تجربات کرتے ہوتے ہیں جیسا کہ ایک شخص کیلئے زندگی کے معنی ایک پہیلی کے ہے، ایک اور شخص کے ہاں زندگی کے معنی امتحان کے ہوتے ہے، اور کچھ لوگوں کے ہاں زندگی راز کا نام ہے، کچھ کا ہاں زندگی کے معنی خوشی کے ہے تو کچھ کے ہاں زندگی کے معنی محبت کے ہوتے ہیں۔

 یہ سب جو زندگی کے بارے میں رائے رکھتے ہوتے ہے ان کے زندگی کے بارے میں ایک دوسرے سے مختلف رائے کا ہونا ان کے عمل سے حاصل نتائج کے ہی ہوتے ہیں جو وہ زندگی میں کرتے ہوتے ہیں اپنے عمل کی بدولت اور پھر اس وجہ سے زندگی کے معنی بھی ہر انسان کے ہاں بالکل مختلف ہوتے ہیں۔

ہماری پوری زندگیاں اس چیز میں نکل جاتی ہوتی ہیں کہ زندگی کے ہر نئے قدم پر کھڑی نئی نئی چیزوں سے مکمل طور پر ہم انجان ہوتے ہے اور جب ان کو سمجھتے ہے تو زندگی کی کتاب کا ایک نیا پنا کھول کر جو بالکل نئی کہانی کے ساتھ ہمارے سامنے کھڑا ملتا ہے اور جب اسے سمجھتے ہے تو پھر ایک اور نیا دور، جو وقت کچھ کرنے کا ہوتا ہے اس وقت ہم زندگی کو سمجھ رہے ہوتے ہے اور جب زندگی کو سمجھنے کے قابل ہوتے ہے اس وقت تک کچھ کرنے کے قابل ہی نہیں رہتے ہوتے ہیں۔

 اس کو ہم ایک مثال سے سمجھتے ہے جیسا کہ سردیوں میں جب ہم صبح سویرے اٹھتے ہوتے ہے تو چاروں اطراف دھند کی وجہ سے ہمارے اپنے قریب پڑی چیزیں تک بھی نظر نہیں آتی ہوتی اور پھر جیسے جیسے وقت بڑھتا جاتا ہے ویسے ویسے چیزیں دھند کی کمی کی وجہ سے پہلے نزدیک نزدیک اور ایک وقت کے بعد دور دور تک نظر آنا شروع ہو جاتی ہوتی ہیں، جوکہ پہلے ہمیں قریب تک بھی نظر نہیں آرہی ہوتی ہیں ٹھیک ایسے ہی جیسے جیسے انسان کی عمر بڑھتی جاتی ہوتی ہے ویسے ویسے تجربات کے بڑھنے سے چیزیں بھی واضح ہونے لگتی ہوتی ہے لیکن ہمیشہ ایک عمر کے بعد تو ہم کہہ سکتے ہے کہ زندگی میں کچھ بھی من چاہا کرنے کیلئے پہلے اس کے تجربات کا ہونا ضروری ہے نہیں تو پھر جو کچھ کرنے کی عمر ہوتی ہے وہ ہماری تجربات کی نظر ہوکر رہ جائے گا، کیوں کہ انسانی زندگی بہت ہی محدود ہے، مگر غیر معمولی کامیابیوں کے حصول کیلئے بہت وقت چاہیے ہوتا ہے۔

 دانائی یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ دوسروں کے تجربات سے فوائد حاصل کیے جائے اس میں جو سب سے بڑی اہم بات ہے وہ یہ کہ اسطرح زندگی کا ایک بڑا حصہ بچ جائے گا جبکہ پہلے والے عمل کی صورت میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ نہیں تو پھر دوسروں کے تجربات کی روشنی میں خود کے تجربات انجام دینے چاہیے جوکہ ایک احتیاطی تدابیر ہوتی ہے جبکہ دوسری طرف بے وقوف نہ ہی خود کے تجربات سے سیکھ لیتے ہیں اور نہ ہی کسی دوسرے کے۔

ہمارے پاس ہمارے اپنے آباؤ اجداد کی کامیاب زندگیاں نمونوں کی صورت میں موجود ہیں اور ان کو کامیاب بنانے والی ان کی خوبیاں کوئی راز نہیں ہیں وہ سب تاریخ کے اوراق پر بکھری پڑی ہیں اور ہر کامیاب انسان ان سے ہی نصیحت حاصل کرتا ہوتا ہے جیسا کہ نپولین بوناپارٹ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے سیڑاھانے کے نیچے ہمیشہ میکاولی کی کتاب شہزادہ رکھتا تھا، اس پوری کتاب کا دو لفظوں میں خلاصہ یہ ہے کہ کامیاب حکومت کرنے کیلئے بادشاہ کو کیسا ہونا چاہیے ؟

اسی طرح لینن اور ماؤ نے اپنی ساری ساسیت کارل مارکس کے نظریات پر کی اور ان کے ہی نظریات کو سیڑھی بنا کر جو اس کی عمر بھر کا نچوڑ تھا خود کے حق میں جتنا استعمال کر سکتے تھے اتنا انہوں نے عمدہ انداز کے ساتھ کیا۔

کسی بھی چیز کے بارے میں لاعلمی کا ہونا اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ معلومات کی کمی ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ معلومات حاصل ہی نہیں کی گئی۔ اگر آج انسان پہاڑوں اور جنگلوں سے نکل کر چاند تک رسائی رکھتا ہوتا ہے تو یہ کسی ایک انسان یا پھر ایک انسانی نسل کا کمال نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے آباؤ اجداد کے نسل درنسل جدوجہد کا نتیجہ ہے جو ایک نسل سے دوسری اور دوسری سے پھر تیسری اور اسطرح یہ سب تجربات کی صورت میں ہم تک پہنچا ہے اور جس کی وجہ سے ہم اس قابل ہوئے ہیں۔

ہم نے یہ ترقی اس وجہ سے کی ہے کہ جو نسل جہاں پر جو کچھ چھوڑتی اس سے آگے دوسری نسل پچھلی نسل کے تجربات کو بنیاد بنا کر آگے کی جانب کو چلتی رہی وہ چاہیے سائنس ہو یا پھر ادب اور تقریباً زندگی کے ہر شعبے میں انسان اجتماعی طور پر اسی حکمت پر عمل پیرا رہا۔

جس طرح ہم نے اجتماعی طور پر کامیابیاں سمیٹیں وہ عمل نہ کرنے کی وجہ سے انفرادی سطح پر اسطرح کی کامیابیاں بہت کم دیکھنے کو نہیں ملتی ہیں اور آج جس کی وجہ سے دنیا کی اکثریت غربت کی لکیر سے نیچے کو زندگی گزار رہی ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ بطور فرد ہم جب کچھ ہم کرتے ہے اس کی بنیادیں ماضی کے تجربات پر رکھنے کی بجائے جو ہم سے پہلے کامیابیاں حاصل کر چکے ہوتے ہیں ان کو بطور خود کیلئے نمونے کے طور پر اپنے سامنے رکھتے ہوئے ان کے تجربات سے سیکھنے کی بجائے خود سے ہی تجربات کو انجام دیتے ہوتے ہیں۔

لوگوں نے جو کچھ زندگیاں لگا کر سیکھا وہ کچھ ہم دونوں میں سیکھ سکتے ہیں اور ایسا کرنے کی وجہ سے اجتماعی طور پر ہم آج چاند پر کھڑے ہے جبکہ 

انفرادی طور پر نظر انداز کرنے کی وجہ سے بطور فرد ہم آج بھی وہی کھڑے ہے جہاں پر سے ہم نے شروعات کی تھی، ہاں ہمارا رہن سہن کا طریقہ زندگی ضرور تبدیل ہوا ہے اور یہ سب کچھ جو مکمل طور پر صورت حال کا تبدیل ہونا اجتماعی زندگی کی دین ہے مگر انفرادی طور پر انسانیت کی حالت آج بھی وہی ہے جس کی وجہ سے دنیا کی ایک بڑی آبادی کو ضروریاتِ زندگی تک بھی میسر نہیں ہیں۔

یہ پوری کتاب انسانیت کے ماضی کا ایک چھوٹا سا خلاصہ ہے اور اس میں آپ کو زندہ کردار جگہ جگہ پر چلتے پھرتے ملے گئے جوکہ کامیاب زندگی گزارنے کیلئے ہمارے لیے نصحیت کی اہمیت رکھتے ہوگئے۔

انسانی شخصیت کے ایسے تمام پہلوؤں کا، جن کے ہونے یا پھر نہ ہونے کی وجہ سے کچھ لوگ غیر معمولی، جبکہ بہت سے قابلیت ہونے کے باوجود بھی ایک معمولی زندگی گزار دیتے ہیں۔ 

ایسے ہی سوالات جن کے جوابات نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کی زندگیاں ویسی نہیں جن کے ہونے سے زندگی ایک خوبصورت شکل میں ہوسکتی ہے۔

جیسا کہ ایک جیسا ماحول، حالات اور مواقع ہونے کے باوجود لوگ کامیابی کے لحاظ سے ایک دوسرے سے بالکل مختلف کیوں ہوتے ہیں ؟

ایسی کون سی تحریک کے ہونے سے کچھ لوگ ناہموار راستوں سے ہوتے ہوئے بھی من چاہی زندگیوں کو پالیتے ہیں اور جبکہ کچھ کے پاس سب کچھ ہونے کے باوجود ان کو کچھ خاص حاصل نہیں ہوتا ؟

ایسی کون سی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے بعض کو بعض پر برتری حاصل رہتی ہے، مگر وہی کچھ کرنے کے باوجود بہت سے لوگ اعلیٰ مقام کے حصول سے رہتے رہ جاتے ہیں ؟

ہم بطور فرد آگے کو چل کر کامیابی کے اعضاء کا تفصیل سے مطالعہ کریں گئے جن کے کمی کی وجہ سے اس کی قیمت بطور فرد ہمیں ناکامی کی صورت میں چکانی پڑتی ہے۔

میں اعضاء اس وجہ سے کہتا ہوں کیوں کہ جس طرح جسم کو ٹھیک طریقے سے کام کرنے کیلئے ان کے اعضاء کا مکمل ہونا ضروری ہے اور اگر ان میں سے کسی ایک کی بھی کمی ہو تو جسم معذور ہوکر رہ جاتا ہے اور کچھ اعضاء اس قدر اہمیت بھی رکھتے ہوتے ہیں کہ ان کے بغیر انسان کا زندہ رہنا تک بھی ناممکن ہوکر رہ جاتا ہے جیسا کہ دل اور جگر اور کچھ اعضاء کی کمی کی وجہ سے انسانی جسم نامکمل تو ہوتا ہے لیکن جسم اپنے آپ کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہتا ہوتا ہے جیسے کہ آنکھ، کان اور زبان وغیرہ ٹھیک ایسے ہی کامیابی کے بھی کچھ اعضاء ہیں، اگر یہ نہ ہو تو تقریباً کامیابی کا حصول ناممکن سا ہوکر رہ جاتا ہوتا ہے جیسے جسم کو زندہ رکھنے کیلئے روح کا کردار ہوتا ہے ٹھیک کامیابی کے حاصل اور قائم رکھنے میں دماغ کا کردار بھی یہی ہوتا ہے، جیسے کہ جسم میں حرکت کیلئے توانائی کا ہونا ضروری ہے ٹھیک ایسے ہی کامیابی میں جذبے کی اہمیت بھی یہی ہوتی ہے۔

 ہم ان کامیابی کے اعضاء کا آگے چل کر ان کی اہمیت کو سامنے رکھتے ہوئے ترتیب کے ساتھ مطالعہ کریں گئے اور جانے گئے کہ ان کا کامیابی کے حصول میں کتنا اہم کردار ہے۔