تمھارے ہونے سے دل کو سکوں ملتا ہے

جنت زمیں پر ہو، مجھے ایسا یقیں ملتا ہے

میری دھڑکنوں کی آہٹیں تجھے سنائی دیتی ہیں 

ایسی محبتیں صرف تجھ میں ہی دیکھائی دیتی ہیں 

تیری آغوش میں کچھ محبت کا ایسا احساس ملتا ہے

اس ابن الوقت دنیا میں ایسا کچھ کہا خاص ملتا ہے

تمہیں زمیں پر انسانیت میں محبت کا خدا ہیں مانا

دنیا جہاں کے رشتے بناوٹی ہیں یہ بار بار آزمایا

ماں تیرے احسانوں کا نعم البدل نہیں

 خدا رسول کے بعد، کوئی تیرا ہمسر نہیں

اگر محبت وفا کی کوئی مورتی ہوتی

وہ ماں ہوتی، وہ ماں ہوتی، وہ ماں ہوتی

ماؤں بغیر گھر سنسان سے ہوتے ہیں 

صحراؤں سے زیادہ ویران سے ہوتے ہیں

 راتوں سے زیادہ دن تاریک ہوتے ہیں

ماؤں بغیر بڑے گندے نصیب ہوتے ہیں 

گھر کی جو شان ہوتی ہے

ماں کے ہونے تک مہمان ہوتی ہے

ماؤں کے ہونے سے ہر دن جو عید سے ہوتے ہیں 

خوشیوں کو ماؤں والے گھر بڑے عزیز ہوتے ہیں

خدا کے ہاں ماؤں کی شان بھی عجیب ہوتی ہیں 

ان کی دعائیں کامیابیوں کی نوید ہوتی ہیں 

زمانے کے ہر رنگ کو بڑے قریب سے ہے دیکھا

وفا کہیں نہیں یہ جہاں ہے ایک دھوکا

یہاں پر چڑھتے سورج کو سلام ہوتا ہے

اس مادہ پرست دنیا کا بس یہی کام ہوتا ہے

یہ جو محبت نام کو تھوڑا سا اپنے پر بھرم ہے

یہ ماں جیسی ہستی کا اس پر کرم ہے

وفا محبت کے جتنا بھی نام ہیں

ماں سے شروع، ماں پہ اختتام ہیں

میں نے عشق کی انتہاؤں کو ہے دیکھا

دل کرتا ہے، کروں اس کی پوجا

میں نے اس کے قدموں میں جنت ہے پائیں 

اس کی ہر دعا مجھے آفتوں سے ہے بچائیں

اس نعمت کی کوئی قیمت لگا نہیں سکتا

اے ماں! تیرے احسانوں کا قرض کوئی چکا نہیں سکتا

ماں کا کل اثاثہ اولاد ہی ہوتی ہے

تھوڑا سا کچھ ہو جائیں پچوں سا روتی ہے

میں نے دیکھا جو ایک ماں کو

تڑپ رہی تھی بیٹے کے حال کو

بیٹا ذرا سا جو کچھ بیمار تھا

ماں کا اس سے بھی برا حال تھا

ہونٹ خشک تھے، چہرا لال تھا

 بس لبوں پر خدا خدا تھا

اس کے حلق سے پانی نہ جاتا تھا

بس بیٹا بیٹا اس کا کہنا تھا 

آپ آئی تو میری جاں میں جاں آئی

اے ماں! تیری قربتوں میں ہی ہے میری شہنشاہی

حضور کا یہ جو فرمان ہے

ماں کی بڑی اونچی شان ہے

 نماز کو میں ہر بار، بار بار توڑ دیتا

ماں کا جب بھی میں بلاوا ہے پاتا

جب مائی حلیمہ حاضر ہوئی حضور کے دربار کو

حضور خود اٹھ کھڑے ہوئے ماں کے استقبال کو

عزرائیل کو سرہانے ہے جب پایا

پوچھا بتاؤ کیسے ہوا جناب کا آنا

عزرائیل کا اشارہ ہیں پاتے

لڑکے کے ہوش رہے جاتے 

لڑکے نے کہا میری ماں کو چھوڑ دو

چاہو تو اس جگہ مجھے موت دو

عزرائیل ہنس پڑا معصوم کی اس بات پر 

 ماں نے جو پیش کیا اس کی جگہ اپنا سر

اس نے خدا سے ایک سودا ہے کیا

 تیری جگہ خود کو ہے پیش کیا

تیری جگہ موت کو گلے لگایا 

تجھ پر نہ ہے یہ احسان جتایا

مائیں کبھی بھی اولاد پر احسان نہیں جتاتی

 اولاد کے ہاتھوں چاہیے ظلم کی چکی میں پستی ہیں رہتی 

جو بھی بدبخت ماں کو ستاے گا

جہنم میں وہ اپنا مقام اونچا بناے گا

دنیا کی جو سب سے گندیاں گالیاں ہیں 

جو ہم نے خود سے ہی پوسی پالیاں ہیں 

یہ جو غلاظت کو فیشن کا نام دے دیا ہے

اسی لیے تو اے نوجواں! ہماری حالت آج یہ ہے 

جب ماں کی دعا ساتھ نہ پاوے 

موسیٰ بھی ڈر ڈر کے کوہِ طور پر جاوے 

ماں کو جب ایک صحابی رسول نے ہے ستایا

کلمہ طیبہ آخری وقت زباں پر نہ آیا

ماں محبت کے بدلے محبت نہیں ہے مانگتی 

یہ تو صرف کاروباری دنیا کی ہے کہانی

میں نے ماؤں سا پیار کسی میں نہ دیکھا

وفا، محبت میں ہے ان کا مقام اونچا

محبت کی مثال عاشق،جب ہے خدا نے دیا 

ماں کا نام لیا، باقی دنیا کو ہے چھوڑ دیا