انسان کی ذات تب تک نامکمل رہتی ہے، جب تک اسے اپنا مقصد حیات نہ مل جائے اور مقصد کی تکمیل میں ہی اس کی ذات کی تکمیل ہے۔

 

ایک دن مدینہ منورہ کی گلیوں میں عام حالات سے زیادہ شور و غل تھا۔ قریب ہی ایک تعلیمی درسگاہ میں طالب علموں کی ایک بڑی تعداد پڑھی کرہی تھی۔ مگر چیخ پُکار اس حد تک اونچی تھی کہ لوگوں کی آوازیں سفر کرتے ہوئے درسگاہ میں موجود طالب علموں کے کانوں تک پہنچنے لگی، ہاتھی آیا ہاتھی آیا، کیونکہ مدینہ منورہ میں ہاتھی نہیں پائے جاتے تھے۔ اس وجہ سے ہاتھی لوگوں کی دلچسپی کا باعث بنا ہوا تھا۔

 لوگ جوق در جوق گھروں سے باہر کو لپک کر ہاتھی کو دیکھتے اور مسرور ہوتے ہوئے پچوں کی طرح خوشی سے اچھلتے کودتے اور آوازیں نکالتے۔

 درسگاہ میں پڑھنے والے طالب علموں میں سے کچھ طلباء استادِ محترم کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے تو جس پر استادِ محترم نے سب طالب علموں کو اجازت دے دی اور سب کے سب طالب علم خوشی سے اچھلتے کھودتے کچھ ہی لمحوں میں درسگاہ سے نکل کر عوام کے ہجوم میں کھڑے ہاتھی کو دیکھ رہے تھے۔ 

جب درسگاہ ویران سی ہوگئی تو ایک طرف ایک طالب علم اپنی کتابوں میں کچھ ایسا مصروف تھا، جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہو، تو استاد نے کہا اے اندلسی! میرے خیال میں اندلس میں بھی ہاتھی نہیں پائے جاتے۔ آپ بھی ہاتھی کو دیکھنے کے لیے چلے جائے، تو لڑکے نے جواب دیا استادِ محترم! میں اندلس سے یہاں ہاتھی دیکھنے نہیں آیا، میں علم حاصل کرنے کے لیے آیا ہو۔

پھر وقت نے دیکھا وہ اپنے زمانے کا سب سے بڑا محدث، مبلغ اسلام اور عالم اسلام کا روشن ستارہ کہلایا جسے دنیا آج سید یحییٰ بن یحیحی قرطبی اندلسی کے نام سے جانتی ہیں۔ اس کا نام آج بھی زندہ ہے، اور ہمارے لیے مثال چھوڑ گئے، اگر اپنے مقاصدِ زندگی کو دنیا کی چکا چوند، روشنی بھری رنگینیوں پر ترجیح دوں گئے تو پھر کامیابی آپ پر گرویدہ ہوگئی اور آپ کا نام روشن ستاروں کی طرح چمکتا دمکتا رہے گا۔

دنیا میں موجود ہر چیز کسی نہ کسی کام کو اپنے وجود سے انجان دے رہی ہے جوکہ اس کام کو انجام دینا اس کا مقصدِ تخلیق ہے۔

 جب وہ اپنے مقصد کو انجام دینے کے اہل نہیں رہتی ہوتی ہے تو فطرت اس ناکارہ وجود کو فوراً ایک متبادل کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے تبدیل کرتے ہوئے اس کا خاتمہ کر دیتی ہوتی ہے۔

 یعنی ہم کہہ سکتے ہے کہ مقصد اس قدر اہمیت رکھتا ہوتا ہے کہ اگر کوئی وجود اپنے مقصد کو انجام دینے کا اہل نہ رہے تو وہ وجود بھی اس کائنات میں رہنے کا اہل نہیں رہتا ہوتا ہے کیونکہ یہ سب اس کائنات کے نظام کو چلانے کیلئے ضروری ہے۔

 ٹھیک ایسے ہی زندگی کو چلنے کیلئے بھی ایک خاص مقصد کی ضرورت ہوتی ہے۔

دنیا بھر میں اکثریت لوگوں کی ریٹائر منٹ کے بعد چند ہی سالوں میں مر جاتی ہوتی ہیں کیونکہ ان کے پاس باقی کچھ ایسا رہتا ہی نہیں ہوتا ہے جو زندگی کو حرکت میں رکھے اور وہ ہمیشہ یہی سوچتے ہوتے ہیں کہ ہمارے پاس کرنے کو اور کچھ رہا ہی نہیں ہے اور جس کی وجہ سے زندگی میں ان کی دلچسپی انتہائی محدود ہوکر رہ جاتی ہوتی ہے اور یہ سوچ انسان کو تیزی کے ساتھ زندگی سے دور کر کے موت کے قریب کر دیتی ہوتی ہے۔

مقصد انسان کی زندگی میں سب سے بڑی طاقت ہوتا ہے،

جتنا بڑا انسان کا مقصد ہوتا ہے، اتنا ہی اس شخص کو آپ اعصابی و دماغی طور پر مظبوط پاؤں گئے اور وہ دنیا کے نشیب و فراز کو بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کرتے ہوئے ہر طرح کے حالات میں آگے کو بڑھتا چلا جاتا ہے۔

 جیسے کہ استقلال کے ذریعے پانی پتھروں کا سینا چیڑ دیتا ہے۔

 ٹھیک اسی طرح مقصدِ زندگی انسان کا مشکل سے مشکل حالات میں بھی حوصلے کے ساتھ مظبوطی سے کھڑے رہنے میں سب سے اہم کردار ادا کرتا ہوتا ہے۔

غیر معمولی لوگ چیزوں سے نہیں بلکہ اپنے مقاصد کو چاہتے ہوتے ہیں، اور وہ بھی اس انتہا کو اور اس کو حاصل کئے بغیر دوسری کسی چیز کی طلب انہیں اپنے مقاصدِ زندگی سے بھٹکا نہیں سکتی ہے۔

میں نے کہیں پڑھا تھا کہ کسی ملک میں انقلاب آنے پر باغی بادشاہ کو جیل میں ڈالنے کے بعد اس کے ایک نوجوان بیٹے کو کسی الگ جنت نما مقام پر اس سوچ کے ساتھ رکھتے ہوتے ہے کہ اسے عیاشی کی خوب غذا کہلائی جائے تاکہ یہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بادشاہت کو بھول جائیے۔

 اس مقام پر نیچے کو خوبصورت سنگ مرمر کا فرش لگا ہونے کے ساتھ اردگرد ہزاروں اقسام کے پھولوں کے پودے ہونے سے خوشبوں میں بسا ہوا ہر وقت سما بندھا رہتا تھا، ہر وقت کئی کئی اقسام کے کھانے پینے کی اشیاء اس کے سامنے پیش کی جاتی تھی، رقاصائیں ایک بڑی تعداد میں اس کی دلجوئی کے لیے متعین کی گئی تھی، گانے بجانے والے اپنی آوازوں سے اسے مسرور کرتے ہوئے پائے جاتے تھے، پہننے کے لئے ہیرے موتیوں میں لپٹے ہزاروں اقسام کے ملبوسات اس کو ملتے۔

 لیکن وہ ان تمام چیزوں سے شہزادہ ذرہ برابر بھی مرغوب نہیں ہوا۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ تم ان چیزوں سے مسرور کیوں نہیں ہوتے تو اس پر وہ جواب دیتا ہے کہ_

“میں ان چیزوں کا غلام بننے کے لئے نہیں بلکہ دنیا میں ایک عظیم بادشاہ بننے کے لیئے پیدا ہوا ہوں”

ایسے ہی مقاصد کے لوگ ہمیشہ تاریخ بناتے ہیں اور ایسے ہی مقاصدِ زندگی رکھنے والے لوگوں سے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ملے گیے۔

لیکن ہمارے معاشرے کے نوجوانوں کی ایک اکثریت عیش و عشرت میں پڑے زندگی کا بہتر سے بہترین حصہ فضولیات میں گزار دیتے ہوتے ہیں، اور جب زندگی میں آنے والے امتحانات کے لیے خود کو تیار نہیں کرتے، سویرا ہو یا پھر اندھیرا خوابوں کی دنیا میں یہ سوچتے ہوئے کہ وقت ہم پر ایسے ہی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مہربان رہے گا، یہ شوخیاں یہ مستیاں، یہ محبتے، یہ یارانے یہ دنیا جہاں کی مہربانیاں ایسے ہی قائم و دائم رہے گئی۔

اپنے بہترین سے بہترین وقت کو سستے مشاغل میں دو ٹکے کے بہاؤ ضائع کرتے رہتے ہیں، اور جب وقت ملنے پر زندگی کی بڑی بڑی لڑائیوں کو لڑنے کے لیے اپنے آپ کو تیار نہیں کرتے، اور پھر جب خوابوں کی دنیا سے نکل کر حقیقت کی دنیا کا سامنا ہوتا ہے، تو حالات کے سامنے ریت کی بنی دیوار ثابت ہوتے ہیں۔ پھر زندگی بھر کے لیے ناکامیاں، محرومیاں، بیروزگاریا، تکلیفیں اور مصیبتیں اور آخر میں گمنام سے ہوکر مڑ جاتے ہیں۔

لوگ اکثر کام کچھ کرتے ہیں مگر زندگی سے چاہتے کچھ اور ہیں، جیسے چاہیے تو پھول مگر پرورش کانٹوں کی کرہے ہوتے ہیں۔

مقصد انسان کی زندگی میں ایک پتوار کا کام کرتا ہوتا ہے جو کامیابی کی کشتی کو منزل کی طرف بڑھنے میں مدد دیتا ہے اور بغیر پتوار آپ کی کشتی پانی کے رحم و کرم پر ہوکر رہ جاتی ہوتی ہے اور پانے ہمیشہ ایسی کشتی کو اپنے حساب سے گھماتا پھرتا ہے، جس طرف بھی پانی کا زور ہوتا ہے اسے بھی ساتھ ساتھ لیے چلتا ہوتا ہے۔

مقاصدِ زندگی سے خالی لوگ وقت کے ساتھ بہتے چلے جاتے ہیں، اور پتا ہی نہیں ہوتا کہ زندگی میں کرنا کیا ہے ؟ ہمیشہ چیزوں کو وقت پر چھوڑ دیتے ہیں اور آسانیاں ڈھونڈتے پھرتے ہیں، مشکلوں سے کوسوں دور بھاگتے ہوئے حقیقت کا سامنا کرنے سے کتراتے ہوتے ہیں۔

کوئی بھی انسان معمولی نہیں ہوتا لیکن وہ اپنے اعمالوں کی وجہ سے غیر معمولی ہونے کے باوجود معمولی ہوکر رہ جاتا ہوتا ہے۔

ایک انسان زندگی میں اتنا کچھ حاصل کرتا ہوتا ہے جتنا کہ وہ خود کو استعمال کرتا ہے۔

آپ نے تجربہ کیا ہوگا جو چیز بھی زندگی میں کرنے کے پختہ ارادے کے ساتھ انجام دینے کا ٹھان لیا جائے وہ ہمیشہ ہو ہی جاتی ہوتی ہے۔

 لیکن جس چیز کو انجام دینے میں سستی کی جائے بس انسان اس سے رہتا رہ جاتا ہوتا ہے، جبکہ باقی ہزاروں لوگ اسی کام میں بڑی ہی آسانی سے کامیابیاں سمیٹ رہے ہوتے ہیں۔

ایک ہی کام لیکن اس سے حاصل نتائج بالکل ایک دوسرے سے مختلف ہونے کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ کام کو انجام دینے کے پیچھے جو انسان کا مقصد ہوتا ہے وہ انسان کو اسی حساب سے ہی عمل کرنے پر تحریک دیتا ہوتا ہے اور ایک انسان کا جتنا بڑا مقصد ہوتا ہے وہ اتنا ہی زیادہ پیچھے سے تحریک کے ہونے پر لگن اور جنون کے ساتھ اس کام کو انجام دیتا ہوتا ہے۔

ایک اوسط صلاحیتوں کا مالک مگر اعلیٰ مقصد کا حامل انسان جو کچھ انجام دیتا ہوتا ہے اس کا ایک اعلیٰ صلاحیتوں سے بھر پور مگر چھوٹے مقصد رکھنے والا شخص اَدنیٰ سا بھی انجام نہیں دے سکتا ہوتا ہے کیونکہ ایک انسان اپنی صلاحیتوں کو اتنا زیادہ استعمال کرتا ہوتا ہے جتنا کہ بڑا اس کا مقصد ہوتا ہے۔

مولانا وحید الدین اپنی کتاب راز حیات میں انیسویں صدی کے ایک شرمیلے ہندو لڑکے کا دلچسپ واقع بیان کرتے ہے کہ یہ لڑکا زمانہ طالب علمی میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران ایک ویجیٹیرین سوسائٹی کا ممبر بن گیا۔

ایک بار اسے سوسائٹی کی میٹنگ میں تقریر کرنے کے لئے کہا گیا تو وہ کھڑا ہوا مگر کچھ بھی نہ بول سکا۔

اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اپنے خیالات کو کس طرح بیان کریں۔

جب کچھ بھی نہ سوجھا تو بالآخر وہ شکریہ کے چند کلمات کہہ کر نیچے بیٹھ گیا۔

ایک اور موقع پر پھر اس لڑکے کو مدعو کیا گیا کہ آپ سبزی خوری کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کریں مگر اس بار اس نے اپنے خیالات کو ایک کاغذ پر لکھ رکھا تھا۔

لیکن جب وہ کھڑے ہوا تو وہ اپنا لکھا ہوا بھی نہ پڑھ سکا۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر اسٹیج پر موجود ایک شخص نے مدد کی اور اس کی لکھی ہوئی تحریر کو پڑھ کر سنایا۔

وہ لڑکا وکالت کا امتحان پاس کرنے کے بعد فوراً بمبئی میں پریکٹس شروع کی لیکن اس کا شرمیلا پن اس کے کام میں بھی روکاوٹ کا سبب بن گیا۔

جب پہلا کیس لے کر وہ جج کے سامنے کھڑا ہوا تو حال یہ ہوا کہ اس کا دل بیٹھنے لگا اور وہ کچھ بول نہ سکا۔

چنانچہ اس نے اپنے موکل سے کہا کہ میں تمھارے کیس کی وکالت نہیں کر سکتا لہٰذا تم کوئی دوسرا وکیل تلاش کر لو۔

 یہ انتہائی کمزور اور شرمیلا سا لڑکا آگے چل کر صرف اپنے مقصد کی وجہ سے مہاتما گاندھی فادر آف دی نیشن کہلایا، جس کی ہندوستان میں آج پوجا ہوتی ہے۔

 آدمی بڑا نہیں ہوتا اس کا مقصد اسے بڑا بناتا ہے۔

 لاکھوں کروڑوں لوگ دنیا میں اے اور چلے گئے، لیکن یاد صرف گاندھی جی جیسے لوگ رکھے جاتے ہیں جو کچھ بڑا کر جاتے ہیں۔

جب آپ کسی غیر معمولی انسان کا نام سنوں تو صرف چند لمحوں کیلئے ٹھر کر وہ کچھ دیکھے جو کچھ اس شخص نے انجام دیا ہوا ہوتا ہے۔

وہ اتنا ہی غیر معمولی انسان ہوگا جتنا کہ اس کا مقصد۔ معمولی مقصد کے ساتھ کوئی بھی شخص غیر معمولی نہیں ہوسکتا ہے اور ٹھیک ایسے ہی غیر معمولی مقصد کا حامل انسان کبھی بھی معمولی انسان نہیں رہتا ہوتا ہے۔

انسانی صلاحیتوں کی طاقت لامحدود ہوتی ہیں لیکن وہ کبھی بھی مکمل طور پر صرف اس وجہ سے استعمال نہیں ہوتی ہیں کیوں کہ انہیں استعمال کرنے والوں کا مقصد بہت ہی محدود اور چھوٹا ہوتا ہے۔

جس کی وجہ سے صلاحیتوں کا ایک چھوٹا سا حصہ بھی انسان بمشکل استعمال کرتا ہوتا ہے۔

کوئی بھی انسان معمولی نہیں ہوتا لیکن وہ اپنے اعمالوں کی وجہ سے غیر معمولی ہونے کے باوجود معمولی ہوکر رہ جاتا ہوتا ہے۔

آج سے کئی سو سالوں پہلے کسی فلسفی نے کہا تھا کہ انسان وہی کچھ ہے جو کچھ وہ سوچتا ہوتا ہے۔

اس فلسفیانہ جملے کے دو حصے ہیں، کیوں کہ انسان دو طرح کی ہوتے ہیں۔

 ایک بڑی سوچ رکھنے والے اور دوسرے چھوٹی سوچ رکھنے والے۔

یہ جملہ دوسرے قسم کے یعنی چھوٹی سوچ رکھنے والوں پر تو پورا اترتا ہے لیکن پہلی قسم کے لوگ پر نہیں۔

کیوں کہ بہت سے لوگ شیخ چلی کی طرح بڑی بڑی سوچے رکھتے ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں عملی طور پر کمزور ہونے کی وجہ سے وہ کبھی بھی کچھ بڑا حاصل نہیں کر پاتے ہوتے ہیں جبکہ دوسری طرف جب ایک انسان کی سورچ محدود ہوتی ہے تو پھر اس کا مقصد بھی بہت ہی چھوٹا ہوتا ہے کیوں کہ چھوٹے مقصد کے پیچھے کی وجہ اس انسان کی اپنی سوچ کا چھوٹا ہونا ہے۔

ایک محدود چیز سے لامحدود کو آپ کبھی بھی نہیں سمجھ سکتے ہوتے ہیں۔

  جیسے کہ ایسے سوچ کے کسی شخص کو کاروبار اور نوکری میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑیں تو وہ فوراً بغیر سوچے نوکری کو چنے گا کیوں کہ اسے اس میں خود کا تحفظ نظر آرہا ہوتا ہے اور جبکہ کاروبار میں رسک کا ہونا اور دوسری وجہ بڑے کاموں کے ساتھ بڑے بڑے مسائل کے ساتھ ساتھ بڑی ذمّہ داریاں بھی جڑی ہوئی ہوتی ہیں جو کہ ایک چھوٹی سوچ والا انسان اس سے دور رہنے میں ہی خود کی بھلائی خیال کرتا ہوتا ہے۔

دنیا میں تین طرح کے لوگ ہوتے ہیں جو مقاصدِ زندگی کو لے کر گمرہی میں جی رہے ہوتے ہیں۔ ایک جن کی تعداد سب سے زیادہ ہوتی ہے اور ان کو مقاصدِ زندگی کا پتہ ہی نہیں ہوتا کہ ہمیں زندگی سے کیا چاہیے ؟ دوسرے جو زندگی میں اچھے وقت یعنی مواقعات کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں، جبکہ تیسرے وہ جو اپنے پاس درجنوں آپشنز رکھتے ہیں۔

ہم آگے اس باب میں ان تینوں اقسام کے لوگوں کی نفسیات کے ساتھ ان سوچوں کا ان کی زندگیوں پر کیا اثرات ہوتے ہیں ؟ اس سوال کے جوابات کو جاننے کی کوشش کریں گے۔

 

مقصد سے عدم واقفیت۔

 

چند سال پہلے کی بات ہیں کہ ایک دیہات کے رہنے والے دو لوگوں کو ڈاک کے ذریعے سرکاری خط وصول ہوتا ہے کہ آپ لوگوں کا شہر میں نوکری کے لیے اگلے دن صبح 7 بجے انٹرویو ہوگا۔ 

دونوں میں سے ایک نے پرائیویٹ سے بی اے کی ڈگری حاصل کر رکھی تھی، جبکہ دوسرے کے پاس پی ایچ ڈی کی اعلیٰ ترین سند تھی۔

 بی اے والے کو انٹرویو کی جگہ کا پتہ تھا، مگر پی ایچ ڈی والے کو جگہ کا علم نہیں تھا۔

 دونوں ڈاک سے خبر وصول کرتے ہی شہر کی طرف نکل پڑے۔

 مگر بی اے والا وقت سے پہلے پہنچ گیا اور کم تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بھی نوکری کا حق دار ٹھہرا، جبکہ دوسری طرف پی ایچ ڈی والے کو جگہ کا پتہ نہ ہونے کی وجہ سے اور دوسرا وقت پر نہ پہنچنے کے سبب وہ اس نوکری سے رہتا رہ گیا۔

 ٹھیک اسی طرح آپ اگر کم قابلیت رکھتے ہیں، مگر مقصد زندگی کا پتہ ہے اور پالینے کی چاہت بھی، تو آپ ان کروڑوں قابلیت رکھنے والے لوگوں سے کئی گناہ بہتر سے بہترین ہیں، جنہیں زندگی کے مقصد کا ہی نہیں پتا۔ جن لوگوں کو مقاصدِ زندگی کا علم نہیں ہوتا، ان کی حالت ایسی ہوتی ہے جیسے کہ ایک شخص صحراؤں میں سراب پانی کے پیچھے کبھی ادھر کبھی ادھر بھاگتا ہے، اس شخص کو پانی کا ملنا تو نصیب ہوسکتا ہے، مگر ایسے شخص کو جو مقصد کے بغیر کامیابی کی جستجو رکھتا ہے اس کے لیے کامیابی ناممکن ہے۔

ہمارے معاشرے کی ایک اکثریت کا المیہ یہی ہے کہ وہ خواہشات اور ضروریاتِ زندگی کو ہی مقصد سمجھ کر ان کو حاصل کرنے کی دوڑ میں لگے رہتے ہیں۔

یہ لوگ مقصد، ضروریاتِ زندگی اور خواہشات میں فرق ہی نہیں کر پاتے ہوتے ہیں۔

پیدا ہونے کے بعد تعلیم حاصل کرنا، شادی کرنا، پچے پیدا کرنا، گھر والوں کو خوش رکھنا، خاندان کے ساتھ خوشگوار تعلقات بنائے رکھنا، مذہبی، سماجی، ثقافتی اور سیاسی حلقوں کے ساتھ جڑے رہنا، یہ سب معاشرے کی طرف سے تشکیل دیا ہوا زندگی کو چلانے کا خوبصورت ترین طریقہ کار ہے۔ لیکن کچھ لوگ ان چیزوں کو ہی مقصد زندگی سمجھ لیتے ہیں۔

 لہذا مقاصدِ زندگی اور ضروریاتِ زندگی کو گڈ مڈ نہ کریں۔

دوسرا لوگ اکثر خواہشات اور مقاصدِ زندگی میں کم علمی کی وجہ سے فرق نہیں کر پاتے ہوتے ہیں۔ ہر وہ چیز خواہش ہے جس کا حاصل کچھ وقت کیلئے تو خوشی کا باعث ہو مگر ابدی نہیں اور ہر وہ چیز جس کے حاصل ہونے کے بعد زندگی مکمل لگنے لگئے وہ مقصد حیات ہوتا ہے۔

اگر خواہشات انسان کو حاصل ہو بھی جائے تو زندگی میں کچھ خاص فرق نہیں پڑتا مگر خواب پورا ہو جائے یعنی مقصد زندگی تو آپ کے اردگرد کئی زندگیوں پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

جتنا بھی بڑی خواہش کیوں نہ ہو پوری ہونے کے بعد وہ ایک چھوٹے سے عرصے میں اپنی حثیت کہوں دیتی ہے مگر مقصد کی حیثیت وقت کے ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہے۔

خواہشات کا زندگی میں ہونا کوئی بری بات نہیں مگر خواہشات پر آپ کا قابوں نہ ہونا یہ خطرناک حد تک خوفناک بات ہے اور جو آپ کی شخصیت کو مسمار کر سکتی ہے۔

 ہمارے اندر صلاحیتوں کی کمی نہیں ہوتی، مگر چیزوں سے انجانیت ہمیں ناکام بنا دیتی ہیں۔

لوگ حادثاتی طور پر چیزوں میں آجاتے ہیں۔ ان کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ ہمیں زندگی سے کیا چاہیے ؟ مگر کامیابی حادثاتی طور پر نہیں ملتی ہے۔

اس کی بہترین مثال ہمارے تعلیمی ادارے ہیں۔

 جب کسی طالب علم سے سوال کیا جاتا ہے کہ آپ کیا کرہے ہے ؟

میں تعلیم حاصل کرہا ہو،

تعلیم حاصل کرنے کا مقصد کیا ہے ؟

کچھ کا جواب ہوتا ہے کہ ابھی تو بس یہی تعلیم مکمل کرنا پہلی ترجیح ہے اور جبکہ دوسری طرف جو کہ اکثریت میں پائے جاتے ہوتے ہیں ان کا جواب ہوتا ہے کہ کوئی اچھی سی نوکری حاصل کرنا مقصد ہے۔

آپ کون سی نوکری کا ارادہ رکھتے ہیں ؟

ابھی سوچا نہیں مگر کوئی بڑی سرکاری نوکری کا ارادہ رکھتی/رکھتا ہوں۔

 ہمارے تعلیمی اداروں میں ڈگریاں مکمل کرنے کے بعد تک جو میں نے قریب سے دیکھا اور جانا تقریباً 90 فیصد طالب علموں کی یہی سوچ ہوتی ہے اور اس سے مختلف نہیں۔ حالانکہ طالب علم سمجھتے ہیں کہ ہمیں پتہ ہے کہ ہمارا مقصد کیا ہے ؟

اور جو ایک اعلیٰ نوکری کا حصول ہے۔ شعوری طور پر تو وہ سوچتے ہیں کہ ہمیں پتہ ہے مگر حقیقت میں انہیں اپنے مقصد کا پتہ نہیں ہوتا۔

 مثلاً دو طالب علموں میں سے ایک css یا پھرpms کے امتحانات کو سامنے رکھتے ہوئے خوب تیاری کرتا ہے اور جبکہ دوسرا صرف کوئی بھی ایک نوکری کو سامنے رکھتے ہوئے پڑھی کرتا رہتا ہے۔ تو پہلے والا یقیناً اگر سترہوے گریڈ کی نوکری نہیں تو بھر پور اور ایک اچھی تیاری ہونے کی وجہ سے یقیناً کسی دوسرے کم گریڈ پر اس کی نوکری ضرور ہو جائے گئی۔ مگر دوسرے والا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے واضع ہدف نہ ہونے اور تیاری کی کمی کی وجہ سے رہتا رہ جائے گا اور اگر تیاری کرتا بھی ہے تو تعلیم مکمل ہونے کے بعد کچھ چند ایک سال کے بعد عمر کی شرط جو سرکاری نوکری کےلئے بڑھ جاتی ہے اور پھر طالب علم رہتے رہ جاتے ہیں۔

ایک سروے کے مطابق ہارورڈ بزنس اسکول نے ایم بی اے کرنے والے طالب علموں سے اپنے آگے کی زندگی کے اہداف کے بارے میں پوچھا تو ان میں سے 84 فیصد طالب علموں کے پاس کوئی وضع ہدف ہی نہیں تھا اور جبکہ ان میں سے 15 فیصد طالب علموں کو اپنے اہداف زبانی جبکہ 3 فیصد طالب علموں نے اپنے آنے والی زندگی کے اہداف تحریریں طور پر لکھے ہوئے تھے اور جب ان تمام طالب علموں کا دس سال بعد آپس میں موازنہ کیا گیا تو ان سب میں تین فیصد جن کے پاس واضح اہداف تھے وہ جو کچھ کما رہے تھے باقی سب طالب علم ان کے قریب تک بھی نہیں تھے۔

ٹھیک ایسے ہی ییل یونیورسٹی کے طالب علموں سے ان کے اہداف کے بارے میں پوچھا گیا تو ان میں سے صرف 3 فیصد طالب علم ہی واضح تحریریں شکل میں اپنے اہداف لکھ رکھے تھے اور جب 20 سال بعد ان کے بارے میں جانا گیا تو وہ تین فیصد طالب علم اجتماعی طور پر دوسرے طالب علموں سے زیادہ کامیاب اور زندگی میں مستحکم تھے۔

آج ہمارے تعلیمی اداروں میں اس سے مختلف صورت حال نہیں، پہلے تو طالب علموں کے پاس غیر مبہم مقصد ہوتا ہے جبکہ کچھ طالب علم آپشنز رکھتے ہوتے ہیں۔ 

کرنا کچھ چاہتے ہیں مگر ڈگری کسی اور چیز کی کرہے ہوتے ہیں اور آخر میں کچھ چند ایک فیصد ہی طالب علم ہوتے ہیں جو واضح طور پر اپنے اہداف کو جانتے ہوتے ہیں اور پھر صرف وہی بڑی بڑی کامیابیاں سمیٹنے کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔

کسی غیر اہم چیز کا وجود اہم نہ ہونے کے باوجود بھی اپنے ہونے کی وجہ سے اہم بن جاتا ہے اور ٹھیک اسی طرح ایک اہم چیز جو واضح طور پر اپنا وجود نہیں رکھتی وہ اپنے نہ ہونے کی وجہ سے اس کی حثیت بھی غیر اہم سی ہوکر رہ جاتی ہے۔

آپ کے ارد گرد ایسی بہت سی غیر اہم چیزیں پڑی ہوئی ہوگئی اور آپ کی کچھ لمحے بھر کیلئے توجہ اپنی طرف کھینچنے میں صرف اس وجہ سے کامیاب ہو جاتی ہو گئی کیونکہ وہ ایک وجود رکھتی ہیں اور وہ چاہے آپ کی نظروں میں جتنا حقیر سی چیز کیوں نہ ہو۔

جو لوگ ایک رفتار کے ساتھ دوڑتے ہوتے ہیں مگر بغیر مقصد ان کے ہاتھوں میں کبھی کچھ نہیں لگتا۔ آپ بھاگئے نہیں صرف چلے مگر ایک خوبصورت مقصد کے ساتھ، آپ چلنے سے قاصر ہیں تو آپ رینگتے ہوئے آگے بڑھے مگر ایک درست سمت کے جانب تو آپ ان لوگوں سے ہزار گناہ بہتر سے بہترین ہے جو کسی مقصد کے بغیر بھاگتے ہوئے پائے جاتے ہیں اور آخر میں ان کے ہاتھ یقیناً کچھ بھی نہیں لگتا ہوتا ہے۔

 

اچھے وقت کا انتظار کرتے رہنا۔

 

دوسری قسم کے لوگ جو کچھ کرنے کی بجائے اچھے وقت کے ساتھ مواقعات کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں اور ان کی 

زبان پر ایک ہی تسبیح کا ورد ہوتا ہے کہ میں نے سوچ رکھا ہے، زندگی میں کچھ بڑا سا کرنا ہے، کچھ الگ سا جو دنیا بھر میں انقلاب برپا کردے گا۔

اگر پوچھا جائے کب ؟

میرا جب وقت اے گا۔

ایسا وقت کبھی نہیں آتا۔

 ایسی سوچ کے حامل لوگوں کیلئے تو کبھی وقت اچھا ہو ہی نہیں سکتا، کیونکہ اچھے وقت کو محنت سے کمانا پڑتا ہے، ناکہ بنا بنایا خود سے مل جاتا ہے۔

 دوسرا دنیا میں کچھ بھی ایک دم سے بڑا نہیں ہو جاتا۔

دنیا کی سب سے عظیم ترین ہستی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک چھوٹی سی سلطنت کھڑی کرنے میں تیرا سال لگ گئے۔

 ان تیرا سالوں میں ایک ایک لمحہ انہونے اپنے مقصد پر خرچ کیا۔

ایک دن آپ شام کو گھر آئے تو پتہ چلا کہ قریب ہی کوئی باہر کا قافلہ آیا ہوا ہے۔ تو آپ فوراً ان کی طرف تبلیغ کیلئے جانے لگئے، جس پر گھر میں سے کسی نے کہا کہ آپ اتنا تھکے ہوئے ہیں ابھی آرام کریں، کل صبح سویرے بات کر لینا،

 تو اس پر آپ نے فرمایا کیا پتہ یہ کل صبح سویرے تک نہ رہے اور فوراً اٹھ کر چل دے۔

آپ چھوٹا سا چھوٹا قدم خدا تعالیٰ کے حکم سے ہی اٹھاتے ہوتے تھے۔

ایسی ہستی جن کے سامنے ارسطو کی ساری فراست، سکندر کا سارا بخت، کوٹیلہ کی تمام دور اندیشیا اور دنیا جہاں کی تمام دنائی آپ کی ذات کے سامنے ہیچ سی ہیں۔ انہونے بھی ایک دم سے انقلاب نہیں پڑپا کردیا تھا۔

 یہ ہمارے لیے سبق ہے کہ انقلاب یک دم سے نہیں برپا ہو جاتے ہیں۔ کچھ بھی کرنے کے لیے زمانے لگتے ہیں اور اپنا آپ کھپانا پڑتا ہے تبھی جا کر کچھ بڑا سا کچھ الگ سا ہوتا ہے۔

چارلس ڈکنز کا انگریزی ادب میں ایک بڑا نام ہے۔ اس کو اپنی پہلی کئی کہانیوں پر ایک پیسہ بھی نہیں ملا تھا، لیکن انہونے کام جاری رکھا، بغیر تھکے، بغیر ہارے اور بغیر روکے، ایک وقت آیا جب ان کو فی لفظ تین پاؤنڈ معاوضہ دیا جانے لگا اور تاریخ میں اس وقت تک اتنا پیسے کسی دوسرے ادیب کو نہیں ملے تھے۔

 اگر کچھ بڑا کرنا کا عزم ہے، تو پھر ابھی سے اپنے مقصد پر کام کرنا شروع کر دے، تھوڑا کروں مگر روزانہ کریں اور کرتے رہوں۔ ایک دن آپ محسوس کروں گے کہ آپ اپنی منزل سے دو قدم کی دوری پر ہیں۔ دنیا میں کوئی بھی چیز ایک دم سے نہیں ہو جاتی ہیں۔

اگر آپ کے پاس بیج کا ایک دانہ ہے اور آپ اس کو درخت کی شکل میں ڈھالنا چاہتے ہیں، تو اس کو زرخیز زمین میں بو دینے کے ساتھ ساتھ ایک لمبے عرصے کے لیے دیکھ بھال کے ساتھ صبر سے انتظار کرنا ہوگا۔

اسی طرح اپنے ذہن کی گہری جڑوں میں مقاصدِ زندگی کا بیج بونے کے بعد آپ کو اس پر محنت کرنے کے ساتھ ساتھ لمبا انتظار کرنا پڑے گا اور پھر جا کر ایک عرصے بعد آپ کو

کامیابی کے درخت سے کچھ پھل پھول کھانے کو ملے گئے۔

جس طرح شاہ بلوط کے درخت اور دوسرے درختوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ شاہ بلوط کے درخت کو مکمل بڑا ہونے کیلئے سو سال کا وقت لگ جاتا ہیں، جبکہ باقی درخت صرف چند ایک سالوں میں ہی مکمل درخت کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ اسی طرح بڑے مقاصد کے لیے بھی زندگیاں خرچ ہو جاتی ہیں اور ان کا پھل نا صرف انسان خود کھاتا ہے بلکہ ساتھ ساتھ آنے والی ہزاروں نسلیں بھی کھاتی ہوتی ہیں۔

کچھ بڑا کرنا ایک بہترین خواب ہے اور آپ میں آپ کی سوچ سے بھی زیادہ صلاحیتیں موجود ہیں مگر ایک دم سے نہیں۔

آپ اپنے شعبے کے پسندیدہ شخصیات کی سوانح حیات کو پڑھے یا پھر ان سے ملنے پر آپ کو پتہ چلے گا کہ انہیں چمکنے کے لیے زمانے لگے تو تب جا کر اپنے عروج کو پہنچے۔

 اگر آپ درخت بننے کی چاہت رکھتے ہیں تو ابھی سے بیج بن جائے ایک وقت کے بعد خود کو درخت کی صورت میں پاؤں گے، اگر آپ کو سمندر کی خواہش دل میں ہے تو پہلے آپ کو پانی کے قطرے سا وجود اپنانا ہوگا، اگر آپ قطرے سے شروعات کر سکتے ہیں تو پھر آپ ایک دن سمندر کی شکل اختیار کر لے گئے اور اگر آپ کے پاس چھوٹا سا ذرہ بھی ہے تو ابھی سے اٹھے اور اسی سے ہی زندگی کی شروعات کریں ایک دن آپ اسی ذرے کو کامیابی کے صحراؤں میں تبدیل پاؤں گئے مگر ایک دم سے بیج سے درخت کی شکل اختیار کرنے کی طلب، قطرے سے پہلے سمندر بننے کا خواب اور ذرے سے قبل صحراؤں کی چاہت یہ ایک خام خیالی ہے۔

 

آپشنز رکھنا ۔

 

تیسری قسم کے لوگ جو اپنے قند سے بھی لمبی فہرست دماغ میں رکھے پھرتے ہیں۔ جب پوچھا جائے کہ کیا ہورہا ہے یا پھر آگے کے کیا ارادے ہیں ؟

تو فوراً حالات کو کوستے ہوئے مایوسی کے ساتھ ایک لمبی فہرست سناتے ہیں کہ میں نے یہ کرنے کی کوشش کی مگر کام نہیں چلا، ابھی فلا چیز کررہا ہوں، اگر وہاں پر بھی بات نہ بنی تو پھر کچھ اور سوچ رکھا ہے۔

 ایسے لوگوں کے پاس کوئی واضع مقصد زندگی نہیں ہوتا، یہ کپڑوں سے بھی جلدیں مقاصدِ زندگی بدلتے ہیں۔

جب انسان کا جسم گندا ہو تو بغیر نہائے کپڑے بدلنے سے کچھ نہیں ہوتا، اسی طرح جب آپ کسی چیز کو کرنے سے پہلے ناکامی کی صورت میں کچھ اور چیز کے منصوبے پہلے سے ہی دور اندیشی کا نام دیتے ہوئے

بنائے رکھتے ہیں تو پھر ناکامی نام کی چیز آپ کی زندگی سے کبھی نہیں جانے والی۔

یہ وہ لوگ ہوتے ہیں، جنہیں اپنی قابلیت پہ شک ہوتا ہے یا پھر ان کے اندر ایک خامی ہوتی ہے کہ چیزوں سے بہت جلد اکتاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں اور کسی بھی کام کو تب تک سر انجام دیتے رہتے ہیں جب تک کہ جی نہیں بھرتا اور کچھ عرصے بعد بوجھ سمجھ کر گلے سے اتار پھینکتے ہیں اور ایسے لوگ کچھ بڑا کبھی بھی نہیں کر پاتے۔ 

جب کسی کے پاس بہت سے آپشنز ہوتے ہیں، تو ایسے لوگ تھوڑی سی ناکامی کے خوف پر اس چیز سے ہمیشہ کیلئے راستے جدا کر لیتے ہوتے ہیں، کیونکہ وہ یہ سوچتے ہوتے ہیں کہ ہمارے پاس دوسرا اس سے بہتر آپشنز موجود ہے۔

پھر ایسے لوگوں کا حال کچھ یوں ہوتا ہے کہ_

ایک دبلا پتلا سا بندہ چوری کرتے ہوئے پکڑا گیا، تو اس کی جسمانی حالت پر ترس کھاتے ہوئے لوگوں نے اختیار دیا کہ آپ کی مرضی ہے، سزا کے طور پر سو پیاز کھاؤ یا پھر سو کوڑے اور نہیں تو پھر جیل جاؤں۔ تو اس نے فوراً کہا کہ میں سو پیاز کھانے کیلئے تیار ہو۔ جب پیاز کھانا شروع کیا ابھی آدھے ہی کھائی تھے کہ چہرے کے خدو خال لال پیلے سے ہوکر رہ گئے اور آنسو کے آنے پر آنکھوں کو ملتے ہوئے کہنے لگا مجھے سو کوڑے کھانے ہیں کیونکہ مجھ سے یہ کڑوے پیاز نہیں کھائے جاتے۔ تو لوگوں نے کہا چلے ٹھیک ہے جیسے کہ آپ کی مرضی۔ انہونے کوڑے ماڑنا شروع کر دے، ابھی تیس کوڑے ہی گھاے تھے کہ اونگھتا ہوا کھنے لگا ٹھہرے بڑہ مہربانی! مجھ سے کوڑے نہیں کھائے جاتے۔ مجھے پچاس باقی والے پیاز کھانے ہیں تو جس پر لوگوں نے کہا نہیں اب اگر پیاز کھانے ہیں تو وہ نئے سرے سے شروع ہوگئے۔ تو نا چاہتے ہوئے بھی کہا کہ مجھے وہی منظور ہے۔ اسی طرح وہ کبھی پیاز کھاتا کبھی کوڑے، آخر کار سو کی بجائے دو دو سو سے زیادہ پیاز بھی کھاے اور کوڑے بھی۔ یہ تو بہرحال ایک لطیفہ ہے مگر حقیقت میں ایسے ہی ہوتا جو لوگ کہتے ہیں کہ یہ نہیں ہوا تو وہ کرلے گئے، اگر وہ بھی نہیں ہوا تو پھر کوئی اور اسطرح ہزاروں آپشنز رکھتے ہیں۔

 جب انسان کے پاس آپشنز ہوتے ہیں تو پھر تھوڑی سی مصیبت آنے پر، تھوڑی سی تکلیف پر، تھوڑی سے ناکامی کے خوف پر اس کی بھی حالت کوڑوں اور پیاز والی ہی ہوتی ہے۔ جن لوگوں کے پاس بہت سے آپشنز ہوتے ہیں پھر وہ لوگ مقصد کیلئے قربانی نہیں دیتے ہوتے ہے بلکہ مشکل وقت آنے پر مقصد کو ہی قربان کر دیتے ہیں۔

کوئی بھی کام ایک پختہ سوچ اور کامیابی کے یقین کے ساتھ نہ کرنے پر وہ پہاڑوں سا مشکل لگتا ہے مگر جب آپ مخلص ہو کر اس کو پانے کے لیے پہلا قدم اٹھاتے ہے اور پھر جیسے جیسے آپ آگے کی طرف بڑھتے چلے جاتے ہیں وہ کام خود بخود مشکل سے آسانی میں تبدیل ہوتا چلا جاتا ہے۔

 مگر آپ کو ایک واضح مقصد کے تحت کامیابی کے یقین کے ساتھ آگے کو بڑھنا ہوگا، جس طرح آئن سٹائن کی تمام کاوشیں صرف سائنسی ایجادات کے لیے ہی تھی یہاں تک کہ صدارت کے عہدے کو بھی قبول نہیں کیا، جین آسٹن صرف ادب کے شعبے میں لگی رہی اور دنیا کو بہت کچھ نیا دے گئی اور وہ بھی بہت کم وقت میں، مہاتما کاندھی جی نے اپنی تمام زندگی آزادی کے نام کردی، آپ بھی صرف ایک واضح مقصد کے تحت آگے کی جانب بڑھے۔

جب آپ ایک مشکل کام ایک پختہ یقین کے ساتھ کرتے ہیں تو وہ یقیناً آسان ہو جاتا ہے مگر جب آپ کوئی کام اس سوچ کے ساتھ شروع کرتے ہے کہ ہوگیا تو ٹھیک نہیں تو اس کو چھوڑ کر کچھ اور کریں گے یقیناً وہ آپ سے کبھی نہیں ہو پائے گا۔

کوئی بھی کام ایک اچھی کوشش کے ساتھ کرنے پر مشکل نہیں رہتا اور نہ کرنے پر دنیا میں کچھ بھی آسان نہیں ہے۔

اگر آپ کو اعلیٰ کامیابی کی طلب ہے تو پھر کسی ایک مخصوص پیشہ سے جڑ جائے اور اسی میں ہی کمال تک پہنچنے میں آپ کے پاس جو کچھ بھی ہے لگا دے۔

چیزوں کو وقت دے اور ان پر کام کرتے رہے زیادہ سے زیادہ، آپ ایک وقت کے بعد چیزوں کو اپنے حق میں ہوتے ہوئے پاؤں گئے اور ہر بڑی کامیابی ایک وقت کے بعد حاصل ہوتی ہے۔

اپنے آپ سے سوال کریں کہ میں کیا ہوں ؟

میرے پاس ایسی کیا صلاحیتیں ہیں ؟

میں ان سے کیا کر سکتا/ سکتی ہوں ؟

مجھے زندگی سے کیا چاہیے ؟

مگر اب کیا کر رہا/ رہی ہوں ؟

کیا جو میں کرہا/ رہی ہوں اس سے اس مقصد کو حاصل کرسکتی ہوں ؟

میں نے جب سے اس کو مقصدِ زندگی بنایا تب سے اب تک کتنا فیصد کامیابی سمیٹی ہے ؟

جو لوگ خود کے خوابوں سے مخلص ہوتے ہیں وہ خود کا سختی سے احتساب کرتے ہوئے اپنے آپ کو کٹہرے میں کھڑا کر کے ہر کچھ عرصے کے بعد اس طرح کے سوالات کرتے ہیں اور اپنے خوابوں کے درمیان بننے والی دیواروں کو مسمار کرتے ہوئے آگے کو بڑھتے چلے جاتے ہیں، کیونکہ جب آپ اپنے خوابوں سے مخلص نہیں تو پھر دنیا کے لوگ کچھ اس طرح کا مزاج رکھتے ہے کہ انہیں اپنی چھوٹی سی تکلیف آپ کی موت کے ہونے سے زیادہ پریشان کرتی ہوتی ہے۔ آپ کو اپنے آپ سے اور اپنے خوابوں سے مخلص ہونا چاہیے۔ 

زندگی میں کچھ بڑا سوچیں جس سے انسانیت کو فائدا ہو، جس سے آپ کو فائدا ہو، اس طرح نہ رہوں جیسے کڑوروں لوگ آتے ہیں اور پھر گھایا پیا، گھوما پھرا، شادیاں کی، پچے کیے، مسرتوں سے لبریز رہے اور چلے گئے لیکن دنیا کو کچھ نہ دیا۔ ایسے لوگوں کی زندگیاں جو بغیر مقصد کے گزر بسر کر چل دیتے ہیں، یہ جانوروں کی زندگی تو ہوسکتی ہے انسانوں کی ہرگز نہیں۔ وہ بھی تو یہی کچھ کرتے ہیں کھاتے ہیں، سوتے ہیں، پھر کھاتے ہیں اور پھر سونا اچھلنا کھودنا جنسی لذتے اٹھانا۔

جس طرح ہمارے آباؤ اجداد نے ہمارے لیے ڈھیر سارا علم چھوڑ کر گئے، ڈھیر ساری دنیا میں روشنی چھوڑ کر گئے، ڈھیر سارے تجربات چھوڑ کر گئے اور ڈھیر سارے ترقی کے راز دے کر گئے، انہونے زندگیاں لگا دی آج وہ زندہ ہے مر کر بھی، اور ہم زندہ ہوکر بھی مردوں میں سے ہیں، اور زمین پر بوجھ کے سوا کچھ بھی نہیں۔

 آج البیرونی، گاندھی جی اور میری کیوری زندہ ہیں لاکھوں کروڑوں لوگوں کے دماغوں میں، آج جان آف آرک زندہ ہے، وہ اپنے کام کی وجہ سے دنیا کو کچھ نیا دیا۔ دینا قدرت کی صفات میں سے ایک صفت ہے، جو کچھ دے جاے گا، کچھ کر جاے گا، آنے والی نسلوں کے لیے بطور نمونہ ہمیشہ زندہ رہ جائے گا اور اسی کا نام ابدی کامیابی ہے۔