احساسِ کمتری انسان کی ناقص سوچ کی دین ہوتی ہے، جسے ہم منفی سوچ کہتے ہے۔
اس کی تقریباً جو اب تک میرے علم میں ہے وہ ان چار وجوہات کی وجہ سے اس کا جنم ہوتا ہے۔
جن میں سے سب سے پہلی اور اہم وجہ ایک شخص جب خود کی ذات کا کسی دوسرے کے ساتھ موازنہ کرتا ہوتا ہے یا پھر کوئی دوسرا اس کا موازنہ کسی کے ساتھ کرتا ہوتا ہے۔
جس پر کمتر ہونے کی وجہ سے وہ خود کو چھوٹا محسوس کرنے کی وجہ سے احساسِ کمتری کا شکار ہوکر رہ جاتا ہوتا ہے۔
جیسے کہ والدین اپنے بچوں کا آپسی یا پھر خاندان کے کسی پچہ کے ساتھ بار بار نمبروں اور دوسری چیزوں کو لے کر کرتے ہوتے ہیں اور دوسرا تعلیمی اداروں میں اساتذہ کلاسسز میں طلباء کا موازنہ اس سوچ کے ساتھ کہ اسطرح ان کے اندر احساس پیدا ہوگا۔
جس سے زیادہ سے زیادہ محنت کریں گئے جبکہ پچے اس چیز کو قابلیت کے معیار کے طور پر دیکھنے لگتے ہے اور جس کی وجہ سے مکمل کوشش کرنے کے کے باوجود ان معیارات پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے ناکامی کی صورت میں پچوں کو کوستے ہوئے مختلف اقسام کے لیبل نا اہل، نکما اور کم عقل ہونے کے لگائے جاتے ہوتے ہیں اور جس پر پچے بھی ایک وقت کے بعد خود کو اندر ہی اندر نااہل خیال کرنے کے ساتھ ساتھ اس چیز کو قبول کر لیتے ہوتے ہیں۔
آپ ربڑ کو ایک حد تک کھینچ سکتے ہے اور اس کے بعد وہ ٹوٹ کر رہ جاتا ہوتا ہے ٹھیک ایسے ہی پچے ایک حد تک کوشش کرتے ہوتے ہیں ان معیارات پر پورا اترنے کیلئے لیکن ایک وقت کے بعد اس پر پورا نہ اترنے کی صورت میں خود کو مکمل طور نااہل تسلیم کر لیتے ہوتے ہیں یا پھر ایک غلط طریقے کو استعمال میں لاتے ہوئے خود کو اس چیز کا اہل ثابت کرنے میں لگ جاتے ہوتے ہیں۔
جیسا کہ ہمارے تعلیمی نظام میں پہلی جماعت سے لے کر پی ایچ ڈی تک کے طلباء کی ایک کثیر تعداد نقل کر کے نمبروں کے معیار پر پورا اترنے کی جدوجہد میں پائی جاتی ہوتی ہے۔
دوسری وجہ انسان کی حثیت وہ کسی بھی لحاظ سے ہوسکتی ہے جس کے اچھے نہ ہونے کی وجہ سے انسان خود کو چھوٹا محسوس کرتا ہوتا ہے۔
اس کی سوچ اس کی اپنی حثیت جتنا ہی ہوتی ہے یا پھر کوئی دوسرا شخص وہ کوئی بھی ہوسکتا ہے چاہے وہ معاشرے کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو جو اپنے رویہ یا پھر الفاظوں سے اس بات کو اس کے ذہن میں بیٹھا دیتا ہوتا ہے کہ اوقات دیکھ کر خواب دیکھنے چاہیے یا پھر کپڑا دیکھ کر پاؤں پھیلانے چاہیے۔
اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اپنی حثیت سے آگے کو بڑھنا تو دور سوچنا بھی نہیں اور لوگوں کی اکثریت پھر یہی کچھ ہی کرتی ہوتی ہے۔
تیسری وجہ کسی کمی کا ہونا جو بظاہر شخصیت پر دھبہ لگ رہی ہو۔
یہ معاملہ صرف ایک طرف سے نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ دونوں اطراف سے ہوتا ہے۔
یعنی اگر دوسری طرف سے کوئی زیادہ خوبصورت اور عمدہ وہ کسی بھی لحاظ سے ہوسکتا ہے تو اس پر انسان خود ہی خود سے چھوٹا جبکہ اس معاملے میں سامنے والے کو بہتر دیکھتا ہوتا ہے۔
اس کا تجربہ آپ کو ضرور ہوا ہوگا جب ہم نئے کپڑے پہنے ہوئے ہوتے ہے تو ہمارا اعتماد بھرپور ہوتا ہے کیونکہ ہم ان میں عمدہ دیکھ رہے ہوتے ہے جبکہ کپڑوں کے خراب ہونے کی صورت میں ہمارے احساسات کچھ برے نہیں ہوتے ہے تو کچھ اچھے بھی نہیں ہوتے۔
اس کو ایک اور زیادہ بہترین مگر ہمارے معاشرے کی تلخ مثال سے ہم سمجھتے ہے جیسا کہ سانولی رنگت کی لڑکیاں اکثر اپنے رنگ کی وجہ سے انہیں بہت کچھ برداشت کرنا پڑتا ہوتا ہے۔
جوکہ لڑکیوں کے معاملے میں رنگت ان کیلئے بہت اہمیت رکھتی ہوتی ہے اور وہ اس معاملے میں بڑی ہی حساس ہوتی ہیں۔
ہاں انہیں ایک وقت تک اس چیز کا احساس تک نہیں ہوتا ہے جب تک سمجدار نہیں ہوتی اور دوسرا ان کی زندگی اپنے گھر کے افراد تک ہی محدود ہوتی ہیں۔ لیکن جیسے ہی وہ باہر کی دنیا کے ساتھ جڑتی ہوتی ہیں تو معاشرہ اپنے رویہ کی صورت میں انہیں شدت کے ساتھ اس چیز کا احساس ہونے پر مجبور کر دیتا ہوتا ہے۔
اکثر آپ نے دیکھا ہوگا کہ لوگ کسی کی کوئی خامی دیکھنے پر اسی خامی کا اسے نام دے دیتے ہوتے ہیں جیسا کہ بینائی کے مسئلہ کی وجہ سے عینک کا استعمال کرنے والوں کو بیٹری، چھوٹے قند والوں کو ڈاڈو چارج کہا جاتا ہے۔
انسانی فطرت ہی ایسی ہے کہ انسانی آنکھ کو دوسروں کی خامیاں رات کی تاریکی میں بھی نظر آجاتی ہیں اور وہ بھی دور سے، لیکن خوبیاں دن کی روشنی میں بھی دیکھائی نہیں دیتی ہوتی۔
چوتھی وجہ معاشرے یا پھر گھر والوں کی غیر منصفانہ تقسیم جیسا کہ کچھ والدین کچھ پچوں سے زیادہ سے زیادہ محبت کرتے ہوتے ہیں ڈھکے چھپے نہیں بلکہ کھلم کھلا اظہار کرتے ہوتے ہیں، جبکہ کچھ کو بالکل ہی اہمیت نہیں دیتے ہوتے ہیں اسطرح کا رویہ بھی والدین یا معاشرے کا احساسِ کمتری کی وجہ بنتا ہوتا ہے، کیوں کہ انسان جس قدر بھی کیوں نہ مظبوط ہو جائے لیکن یہ ایک جذباتی مخلوق ہے اور فطری طور پر یہ چیز انسان کو شدت کے ساتھ محسوس ہوتی ہے، جوکہ انسان کو کمتری کا احساس دلاتی ہوتی ہے۔
اس سب کا حاصل خلاصہ یہ ہے کہ ہر وہ کمزوری جو ایک انسان کو خود سے محسوس ہو یا پھر کسی دوسرے انسان کی طرف سے اسے اس چیز کا احساس دلایا جائے تو اس سے احساسِ کمتری کا جنم ہوتا ہے بشرطیکہ اس کو انسان اہمیت نہ دیں۔ اگر وہ انسان اس پر خود کو کمتر محسوس کرتا ہوتا ہے اور وہ جتنا خود کو زیادہ چھوٹا محسوس کریں گا اتنا ہی زیادہ احساسِ کمتری کا شکار ہوکر رہ جائے گا۔
معیار اور حثیت کے موضوع پر تو ہم پیچھے پہلے اور دوسرے باب میں تفصیل سے بات کی ہے، جبکہ باقی شخصیت میں کسی کمی کا ہونا یا پھر موازنہ پر ہم بات کرتے ہے۔
دنیا کی تمام مخلوقات بشمول انسان نامکمل ہے۔
جبکہ ایک ہی ذات کو مکمل ہونے کا اعزاز حاصل ہے اور وہ ہے خدا تعالیٰ کی ذاتِ اقدس۔
دنیا میں موجود کوئی بھی چیز مکمل لفظ کے وجود سے مکمل طور پر خالی ہے اور زندگی کا ہر حصہّ کسی نہ کسی چیز کی کمی کی وجہ سے نامکمل ہوکر رہ جاتا ہوتا ہے اور وہ لوگ ہمیشہ جو اس چیز کو جتنا زیادہ جلدی سے سمجھتے ہوئے قبول کر لیتے ہوتے ہیں وہ اتنا ہی زیادہ خود کیلئے آگے کی زندگی کو آسان اور خوبصورت پاتے ہے۔
دوسرا جیسا کہ ہم نے دوسرے باب میں جانا ہے کہ ہر انسان کو قدرت کچھ نہ کچھ خاص صلاحیتوں سے نوازتی ہوتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ انسان کچھ کمزوریاں بھی رکھتا ہوتا ہے۔
آپ اپنے آپ کو معاشرے کی عینک سے نہ دیکھو، معاشرے کی آنکھوں پر ایسی عینک لگی ہوئی ہے جو آپ کی نینانوے خوبیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک خامی پر جا کر روک جاتی ہے۔
گلاب کے پھول کے ساتھ کانٹے بھی ہوتے ہیں، لیکن پھول اپنی خوشبوں اور خوبصورتی میں اسطرح کا کمال رکھتا ہے کہ لوگوں کو اس کے کانٹے دیکھائی ہی نہیں دیتے۔
تم بھی اپنی صلاحیتوں پر اسطرح سے کام کروں کہ لوگوں کی نظروں میں آپ کی خامیاں دھندلی پڑ جائے۔
ہر انسان میں کچھ نا کچھ خامیاں اور کچھ خوبیاں موجود ہوتی ہیں، جب انسان اپنی خوبیوں کو جان لیتا ہے، تو پھر کامیابی اور اس کے درمیان درست سمت میں محنت نام کی چیز کا فاصلہ رہ جاتا ہے۔
ہمیں بس وہ ڈھونڈنی پرتی ہے، جیسے قیمتی موتی، سونا، قیمتی معدنیات ہائبرڈ کاروں اور بیٹریوں یہ سب سمندر کی تہوں سے ڈہونڈنے پر ملتے ہیں۔ اگر ہم ان کو دنیا کے میلوں ٹھیلوں میں ڈھونڈتے پھریں گے، تو خاک کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔
مگر کچھ لوگ اپنی تمام خوبیوں کو نظر انداز کر کے چھوٹی چھوٹی خامیوں پر ہلکان سے ہوجاتے ہیں، چاہیے وہ ان کی عقل کا دھوکا ہی کیوں نہ ہو اس بے وقوف بارہ سنگھے کی طرح جو ندی پر پانی میں اپنا عکس دیکھنے کے بعد خوبصورت سنگھوں پر تو اتراتا ہے۔ مگر کمزور ٹانگیں اسے اپنے جسم پر دھبہ لگتی ہیں۔ جو بعد میں وہی کمزور ٹانگیں جان کے پچانے کیلئے اپنا کردار خوب ادا کرتی ہے مگر وہ خوبصورت سنگھ جن پر اتراتا ہے اس کی موت کی وجہ بن جاتے ہے۔
بعض اوقات ہماری وہی چیز جو بظاہر ہمیں خامی نظر آتی ہے، وہ قدرت کی طرف سے ہمارے لیے بہت بڑی نعمت ثابت ہوتی ہے۔
مولانا وحید الدین خان صاحب راز حیات میں لکھتے ہے کہ گاندھی جی اپنی کتاب تلاشِ حق میں اپنے بارے میں بتاتے ہے کہ وہ پچپن سے ہی شرمیلے تھے اور ان کا یہ مزاج لمبے عرصہ تک باقی رہا۔
جب وہ تعلیم کے لئے لندن میں گئے ہوئے تھے تو وہ اس دوران ایک ویجیٹیرین سوسائٹی کے ممبر بن گئے۔
ایک بار انہیں سوسائٹی کی میٹنگ میں تقریر کرنے کے لئے کہا گیا۔ وہ کھڑے ہوئے مگر کچھ بھی نہ بول سکے۔
ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اپنے خیالات کو کس طرح بیان کریں۔
جب کچھ بھی نہ سوجھا تو بالآخر وہ شکریہ کے چند کلمات کہہ کر نیچے بیٹھ گئے۔
ایک اور موقع پر پھر آپ کو مدعو کیا گیا کہ آپ سبزی خوری کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کریں مگر اس بار انھوں نے اپنے خیالات کو ایک کاغذ پر لکھ رکھا تھا۔
لیکن جب وہ کھڑے ہوئے تو وہ اپنا لکھا ہوا بھی نہ پڑھ سکے۔ ان کی یہ حالت دیکھ کر سٹیج پر موجود ایک شخص نے مدد کی اور ان کی لکھی ہوئی تحریر کو پڑھ کر سنایا۔
گاندھی جی نے وکالت کا امتحان پاس کرنے کے بعد بمبئی میں پریکٹس شروع کی لیکن آپ کا شرمیلا پن یہاں تک بھی آپ کا پیچھا نہ چھوڑا اور ان کے کام میں بھی یہ روکاوٹ کا سبب بنا۔
پہلا کیس لے کر جب آپ جج کے سامنے کھڑے ہوئے تو حال یہ ہوا کہ ان کا دل بیٹھنے لگا اور وہ کچھ بول نہ سکے۔
چنانچہ آپ نے اپنے موکل سے کہا کہ میں تمھارے کیس کی وکالت نہیں کر سکتا لہٰذا تم کوئی دوسرا وکیل تلاش کر لو۔
بظاہر یہ کتنا عجیب بات ہے کہ پچھلی صدی کا سب سے عظیم لیڈر اور عظیم شخصیت جسے مہاتما اور فادر آف دی نیشن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، جس کی ہندوستان میں پوجا ہوتی ہے، وہ شخصیت چند ایک لوگوں کے سامنے بول نہیں سکتے تھے۔
مگر گاندھی جی اس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ سب کمیاں بعد کو میرے لئے بہت بڑی نعمت ثابت ہوئیں۔
بولنے میں میری یہ ہچکچاہٹ جو کبھی مجھے تکلیف دہ معلوم ہوتی تھی، اب وہ میرے لئے خوشی کا باعث ہے۔
اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اس نے مجھے مختصر الفاظ میں بولنا سکھایا۔
میرے اندر فطری طور پر یہ عادت پیدا ہو گئی کہ میں اپنے خیالات پر قابورکھوں۔
اب میں اعتماد کے ساتھ کہ سکتا ہوں کہ مشکل ہی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی بے معنی لفظ میری زبان یا قلم سے نکلے۔
گاندھی جی اپنی اسی خصوصیت میں بہت مشہور تھے کہ وہ بہت ہی سوچی سمجھی سی بات بولتے تھے اور سادہ اور مختصر الفاظ میں کلام کیا کرتے تھے۔
یہ امتیازی خصوصیت ان کو صرف ایک غیر امتیازی خصوصیت کے ذریعہ حاصل ہوئی، وہ یہ کہ وہ اپنے بڑھے ہوئے شہر میلے پن کی وجہ سے ابتدائی طور پر لوگوں کے سامنے بول ہی نہیں پاتے تھے۔
اسی طرح نپولین کے ساتھ تعلیم کے حصول کے دنوں میں دوسرا کوئی طالب علم ساتھ بیٹھ کر کھانا نہیں کھاتا تھا مگر وقت بدلا اس نے ایسا عروج حاصل کیا اپنی قابلیت کے بنا پر کہ پھر لوگ اس کی شان و شوکت کی وجہ سے اپنی طرف ایک نگاہِ کرم کرنے کے لیے ترستے تھے۔
آپ کیا ہے، کبھی بھی اس فیصلہ کا حق آپ معاشرے کو نہ دے بلکہ یہ آپ کی کی ذات کو ہونا چاہیے اور جنہوں نے یہ حق خود سے استعمال کیا وہ چاہیے کچھ بھی تھے لیکن بعد میں وہی کچھ معاشرے میں کہلائے جو وہ کہلوانا چاہتے تھے اور پھر ان کی وہی خامیاں جو پہلے معاشرے کے ہاں انہیں ہیچ بناتی ہوتی تھی آگے چل کر انہیں کے استعمال سے وہ غیر معمولی لوگ کہلائے۔
کہا جاتا ہے کہ انڈیا کے بہترین اداکار امیتابھ بچن جب آل انڈیا ریڈیو میں کام مانگنے گئے تو انہیں یہ کہتے ہوئے کام نہیں دیا گیا کہ آپ کی آواز اتنا گندی اور ڈراؤنی ہے اگر پچے سنے گئے تو ڈر جائے گے۔ اس کے بعد فلم انڈسٹری میں کام مانگنے کیلئے گئے، تو قند کی لمبائی کا یہ کہتے ہوئے مذاق اڑایا گیا کہ آپ کے قند کی ہیروئن کہا سے لائے گئے۔
آپ ایسا کریں کسی ٹی وی چینل میں جا کر اینٹینے بنانے کا کام کریں، لیکن ایک وقت آیا جب وہی آواز اور قند امیتابھ کی پہچان بنا۔
جو پہلے کام نہ ملنے کی وجہ بنا ہوا تھا آگے چل کر یہی لمبائی اور آواز امیتابھ کو اپنے مقابلے کے لوگوں میں ممتاز اور نمایاں بنا دیا۔
اپنے ہونے کے احساس سے بڑھ کر دنیا میں کیو دوسرا احساس نہیں اور یہ احساس جس کے اندر بھی سما جاتا ہے وہ جو کچھ بھی زندگی سے چاہتا ہے وہ سب بڑی آسانی سے پا جاتا ہے اور یہ احساس بہت کم لوگوں کو کمانے سے حاصل ہوتا ہے۔
اے زمین زاد! تم یہ کیسے سوچ سکتے ہو کہ میرے اندر کچھ کمی ہے۔
اے جانِ من! آدمی کوئی بھی چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا، یہ انسان کے دماغ کی سوچ ہی ہوتی ہے، یہ جیسی بھی ہوگی انسان بھی ویسا ہوگا۔ اگر یہ بڑی ہے تو انسان بہت بڑے بڑے کام کر جائے گا اور اگر یہ چھوٹی ہے تو انسان احساسِ کمتری جیسی ہزاروں بیماریوں میں مبتلا رہتا ہے۔ انسان کو سوچ سے غیر معمولی ہونا چاہیے تبھی ہی زندگی زندگی غیر معمولی ہوگئی۔
زندگی کبھی بھی کسی دوسرے کی شخصیت سے مرعوب نہیں ہونا اور دوسرا کبھی بھی اپنا موازنہ کسی دوسرے انسان سے نہیں کرنا۔
اے جانِ عزیز! زندگی میں کبھی بھی کسی سے مقابلہ بازی نہ کروں، جب آپ کسی سے مقابلہ کرتے ہے، اس کا مطلب ہوتا ہے کہ آپ سامنے والے کو اپنا مد مقابل تصور کرتے ہے۔ جبکہ آپ ایک ہے، آپ جیسا دنیا میں کوئی بھی نہیں، آپ قدرت کے بنائے ہوئے شاہکار نمونہ ہے۔
کسی دوسرے کی ذات کے ساتھ خود کا موازنہ کرنا انسان میں اس کے بہتر ہونے پر حسد پیدا کرتا ہے یا پھر اس کے کمتر ہونے پر انسان میں غرور کو جنم دیتا ہوتا ہے اور جوکہ یہ دونوں ہی انسان کی اپنی ذات کیلئے ہلاکت ہیں۔
اس وجہ سے عقل مندی یہی ہے موازنہ اپنی ذات سے کرنا چاہیے اور اپنے آج کا موازنہ کل سے کرنا چاہیے اور خود کا احتساب کرنا چاہیے اور یہی منصفانہ احتساب آپ کو میدان میں بہت جلد صفِ اول میں لاکھڑا کردے گا کیوں کہ یہ کچھ دوسرے لوگ نہیں کرتے ہیں۔
لوگوں کی باتوں پر کبھی بھی کان نہ دھریں، آپ کے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہونا چاہیے کہ آپ کے بارے میں لوگوں کی کیا سوچ ہیں ؟
جو آج نفرت بھی رکھتے ہیں، کل آپ کی کامیابی پر محبت سے دل جیسے مقدس مقام میں آپ کو رکھے گئے۔
تم جیسا کوئی بھی دوسرا کائنات میں نہیں۔
آپ جو کوئی بھی ہے اور جو کچھ بھی کرتے ہے، اگر آپ اپنے کام کے ساتھ مخلص ہے اور اس کو ایمانداری کے ساتھ کررہے ہے تو قدرت کو آپ پر فخر ہے اور آپ کو اپنے آپ پر بھی فخر ہونا چاہیے کیونکہ آپ قدرت کے اس نظام کو چلانے میں بطور معاون کا کردار ادا کررہے ہے۔
آپ کو اس کائنات میں قدرت کے نائب ہونے کا اعزاز حاصل ہے جوکہ کسی بھی دوسری مخلوق میں سے کسی کو حاصل نہیں ہے۔
دنیا میں کوئی بھی عقل مند بادشاہ اپنا نائب مقرر کرتے ہوے ایسے شخص کا انتخاب کرتا ہے جو نا صرف دور اندیش اور سیاسی بصیرت رکھتا ہوں بلکہ علم اور حکمت کے ساتھ اس کی بہادری اور شجاعت کے چاروں اطراف ڈنکے بجتے ہو۔ جو سلطنت کی بھاگ دوڑ سنبھالنے کی قابلیت رکھتا ہو، جو پوری ریاست میں اپنے کردار اور مظبوط امیدوار کے طور پر اپنا ثانی نہ رکھتا ہو۔
یعنی ہر اس خوبی میں کمال رکھتا ہو جو ایک بادشاہ کی نظر میں اہم ہو۔ یہ تو دنیا کا عام سا بادشاہ ہے جس کا علم سمندر کے ایک قطرہ جتنا بھی نہیں، صحرا کے ایک ذرے کے برابر نہیں، جس کا علم آسمان پر موجود ایک ستارے سے بھی حقیر ہے۔
جس کی معلومات اتنا محدود ہے کہ اسے اپنے اچھے اور برے کا پتہ نہیں، دوست اور دشمن میں تمیز نہیں، اپنے کل اور آج کا علم نہیں وہ شخص اپنا نائب ایسے شخص کو بناتا ہے۔
اے زمین زاد! تو کیسے احساسِ کمتری کا شکار ہوسکتا ہے، جب تمہیں قدرت کا نائب ہونے کا اعزاز حاصل ہو۔
اے عزیز! کچھ تو ایسا ہے تم میں جو قدرت نے کروڑوں مخلوقات میں سے صرف تمہیں ہی اپنا نائب مقرر کیا اور ساتھ ہی ساتھ اشراف المخلوقات کے سرٹیفیکیٹ سے بھی نوازا۔
اے جانِ من! اپنی دنیا اور جہاں پیدا کر اپنا آسماں اور زمیں بنائے، دوسروں کی دنیا میں نہ رہوں۔ اگر تمہیں دوسروں کی دنیا میں سے کچھ ملے گا بھی، تو وہ تول تول کر دے گے۔ تم اپنی آپ کی عزت کروں تبھی لوگ تمہاری عزت کریں گے۔ دوسروں کے ہاں سے جو کچھ بھی آپ کو حاصل ہوتا ہے، یہ دنیا کا اصول ہے پھر وہی کچھ واپس ادا کرنا پڑتا ہے کسی نہ کسی صورت میں اور تم کماؤں اپنی دنیا کیونکہ کمائی ہوئی چیز کسی کو واپس نہیں کرنی پڑتی۔