ہر وہ خواب جو کسی جاگتی ہوئی آنکھ میں جنم لیتا ہے، اسے اڑان کیلئے پنکھ یقین کے ہونے سے حاصل ہوتے ہیں۔

 

ایک شخص کاروبار میں دیوالیہ ہونے بعد زندگی سے مکمل طور پر مایوس ہوکر گھر بیٹھ گیا۔

 اس کا ایک دوست اس کی ایسی حالت کو دیکھنے کے بعد اسے ایک ایسے گرو کے پاس لیے گیا جس کی کرامات دور دور تک مشہور تھی۔

 گرو کو تمام کاروباری ناکامی کی کہانی سنائی گئی تو اس پر گرو نے کہا بیٹا بس اب آپ اپنی آنکھیں مکمل طور پر کھلی رکھنا۔

 آپ کو بہت جلد قدرت کی طرف سے الہام ہوگا اور بغیر سوچے سمجھے اس کام میں لگ جانا اور وہ موقع قدرت آپ کو خود بھیجے گئی۔

 بس اب قدرت آپ کو کامیاب دیکھنا چاہتی ہے اور پہلے والی ناکامی آپ کا چھوٹا سا امتحان تھا۔ اب اس کا پھل ملے گا اور بہترین ملے گا۔

 وہ شخص کچھ عرصہ بعد کسی کام کے سلسلے میں پبلک ٹرانسپورٹ سے سفر کر رہا تھا تو قریب بیٹھا شخص کسی دوسرے شخص سے کہہ رہا تھا کہ اگر اس پہاڑی پر ہوٹل لگ جائے تو میری زندگی کا تجربہ کہتا ہے کہ یہاں سے بہت زیادہ آمدنی ہوگئی۔

بس پھر کیا تھا وہ شخص اس کو قدرت کی طرف سے غیبی اشارہ سمجھتے ہوئے بینک سے بہت سارا قرضہ لیا اور فوراً اس یقین کے ساتھ کہ قدرت مجھ سے محبت کرتی ہے اور وہ مجھے کامیاب دیکھنا چاہتی ہے۔ بھر پور خود اعتمادی کے ساتھ کام میں لگ گیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس کا کام خوب چل نکلا۔ 

چند سالوں کے اندر اس نے وہ کچھ حاصل کیا جو باقی پوری زندگی میں نہیں حاصل ہوا اور وہ بھی مکمل طور پر دیوالیہ ہونے کے بعد صرف ایک خوبصورت یقین کے ساتھ ہونے پر، یقین کا سفر ہمیشہ ثمرات کی منزلوں پر ٹھرتا ہے۔

اتنا کامیابیاں سمیٹنے کے بعد اپنے محسن گرو کی شکر گزاری کے لیے کچھ بہترین تحائف کے ساتھ ملنے کے لیے گیا تو گرو وہاں پر نہیں تھا۔ ارد گرد کے لوگوں سے پوچھنے پر علم ہوا کہ وہ تو جعلی گرو تھا جو دنیا کو بے وقوف بنایا ہوا تھا۔ بہرحال اس گرو نے اس کی زندگی بدل کر رکھ دی تھی۔

 وہ اس سب باتیں سننے کے باوجود بھی جعلی گرو کے پاس جیل میں جا کر ملا اور ملاقات کے بعد جب آنے لگا تو کہا کہ آپ نے جو کچھ مجھے کہا تھا میں نے بس وہی کچھ کیا اور کامیاب ہو گیا مگر اس کے پیچھے کی حکمت کیا تھی ؟

تو اس پر جعلی گرو نے کہا کہ جو کوئی بھی لوگ میرے پاس آتے تھے وہ سب کے سب زندگیوں سے مایوس ہوتے تھے ناکہ کمزور۔

 وہ سب کے سب آپ ہی کی طرح غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک ہونے کے باوجود بس وہ خوف اور مایوسی کا شکار ہونے کی وجہ سے زندگی میں ناکامیوں کا شکار تھے۔

 بس ان کو ایک خوبصورت یقین کی ضرورت ہوتی تھی کہ میں ہر اس چیز کا حقدار ہو جو مجھے زندگی سے چاہیے مگر صلاحیتوں کے ہونے کے باوجود یقین کی کمی کی وجہ سے وہ اس کے حاصل سے قاصر ہوتے تھے اور جو میں انہیں وہ دیتا تھا۔

میں ایک وقت تک ہمیشہ حیران ہوتا تھا کہ یہ جھوٹے لوگ معاشرے کو کیسے بے وقوف بناتے ہوتے ہیں ؟

اور اس سے بھی زیادہ حیرانی کی بات میرے لیے یہ ہوتی تھی کہ ان میں اکثریت لوگوں کے کام بھی ہو جاتے ہیں۔

یقیناً میں ان کی کرامات پر یقین کر لیتا لیکن کچھ لوگوں کو ذاتی طور پر جاننے کی وجہ سے اور دوسرا اپنی طبیعت کی وجہ سے ایسا وقت نہیں آیا۔ ایک عرصے بعد مجھ پر انکشاف ہوا کہ یہ بات ہی ساری کی ساری یقین کی ہوتی ہے اور ان بابا لوگوں کے پیروکار جو ان پر اندھا دہند یقین رکھتے ہوتے ہیں جیسا کہ ایک مشہور واقع ہے کہ ایک صاحب کسی تقریب کے اندر واعظ فرما رہے تھے کہ یقین کہ ساتھ جس انسان نے سورہ اخلاص پڑھ لی تو وہ کوئی بھی کیسا بھی مشکل کام کیوں نہ ہو کر جاے گا۔

 وہاں پر ایک چرواہا موجود تھا جو اس کو اپنی بکریوں کی خوراک کیلئے روانہ دریا کے دوسرے کنارے جانا پڑتا تھا جو کہ خطرناک کام تھا۔

 اکثر کشتی کے نہ ہونے کی وجہ سے اسے دیر ہونے کے ساتھ ساتھ چند پیسے بھی ادا کرنے پڑتے تھے۔

تو اس واعظ کے سننے کے بعد وہ پھر روزانہ سورہ اخلاص پڑھ کر قدرت پر یقین کے ساتھ دریا عبور کرنے لگا۔

 اتفاقاً ایک دن ایسا ہوا کہ اسی عالم کو وہ دریا عبور کرنا تھا مگر بدقسمتی سے کشتی موجود نہ تھی اور وہ چرواہا بھی وہی پر موجود تھا۔ اس عالم کو چرواہے نے اس کا بتایا ہوا وظیفہ بتایا لیکن وہ عالم یقین کامل نہ ہونے کی وجہ سے وہی پر کھڑا رہا جبکہ چڑوہا ہمیشہ کی طرح دریا عبور کر گیا۔

یقین انسان کی اندرونی کیفیت کا نام ہے۔

انسان جب کچھ کرنے کے عزم کے ساتھ آگے کی جانب بڑھتا ہوتا ہے تو اس کے اندر سے ایک آواز آتی ہوتی ہے جو ممکن اور ناممکن کے ہونے کی دعویٰ دار ہوتی ہے اور یہ آواز یقین کی ہوتی ہے۔

اگر آپ کی اندرونی ذات کو یقین ہے کچھ کر جانے کا تو وہ کچھ آپ ضرور کر جائے گئے کیونکہ انسان کی اندر کی آواز کبھی بھی غلط نہیں ہوتی ہے۔

جس کے ہونے سے ایک انسان کو ابھی نتائج حاصل نہیں ہوتے ہے لیکن اس کے حاصل پر مکمل ایمان ہوتا ہے اور پھر ہوتا بھی وہی کچھ ہے۔

کسی بھی کام کی کامیابی میں یقین کی خوبصورتی یہ ہے کہ انسان کی نظریں ہمیشہ ممکنات کی جانب ہوتی ہیں اور جو ایک وقت کے بعد ہر خواب حقیقت کی صورت اختیار کر لیتا ہوتا ہے اور جو کہ بغیر یقین کبھی ممکن نہیں۔

  یقین کی عدم موجودگی کی وجہ سے پہلے تو کام شروع ہی نہیں ہوتے ہیں اور اگر کسی وجہ سے انجام دینا پڑ بھی جائے تو پھر اس شخص کی حالت ایسے کھلاڑی کی طرح ہوتی ہے جو مکمل طور پر ہاڑ تسلیم کرنے کے بعد ایک آخری مگر کمزور کوشش کرتا ہوتا ہے اور پھر یقیناً اسے ناکامی سے ہی دو چار ہونا پڑتا ہے۔

دنیا میں سب سے خوبصورت احساس اپنے ہونے کے احساس کے بعد اپنے خوابوں کے سچ ہونے کا ہوتا ہے اور یہ احساس یقین کے ہونے سے ہی ہوتا ہے۔

 آج تک دنیا کے جتنا بھی لوگوں نے کامیابیاں سمیٹیں ان سب کو اپنی کامیابی کے حاصل پر اتنا ہی یقین تھا جتنا کہ بڑا ان کا خواب۔

یہ یقین ہی ہوتا ہے جو کامیابی کے حاصل تک ہر وہ عمل کر گزرنے کی طاقت دیتا ہے جو ناکام لوگ تصور کرنے سے بھی قاصر رہتے ہیں۔ یہ یقین ہی ہوتا ہے جو آپ کو کامیابی سے روشناس کراتا ہے کہ آپ ہر اس چیز کے حقدار ہے جس کی طلب آپ زندگی سے رکھتے ہیں اور پھر اسی یقین کے ساتھ ہر وہ قربانی جو مقصد کے حصول کے لیے چاہیے ہوتی ہے وہ بڑی آسانی سے دیتے ہوئے اپنی منزل کی طرف بڑھ جانے کی تحریک دیتا ہوتا ہے اور جو معمولی مقاصد کے حامل لوگ یقین کی عدم موجودگی کی وجہ سے دینے سے خوف کھاتے ہیں۔

یہ یقین ہی ہوتا ہے جو انسان کو اڑنے کیلئے پنکھوں کا کام دیتا ہیں اور اس کی عدم موجودگی کی بنیاد پر لوگ زمین پر صلاحیتوں کی بھرمار ہونے کے باوجود رینگتے رہتے ہیں۔ یہ یقین ہی ہوتا ہے جو آپ کو بڑے بڑے خواب دیکھنے کی تحریک دیتا ہے اور پھر سچ کر دکھانے کی طاقت سے نوازتا ہے، یہ یقین ہی ہوتا ہے جو آپ کو اپنے خوابوں کے حاصل تک کبھی بھی نا امیدی کو آپ کے قریب نہیں بھٹکنے دیتا ہے۔

آپ کا یقین اپنے آپ پر اور اپنی کامیابی کے حاصل پر جتنا زیادہ ہوتا ہے آپ اتنا ہی کامیابی کے قریب ہوتے ہیں اور جبکہ آپ جتنا ہی کسی چیز کے حصول پر عدم تحفظات کا شکار ہوتے ہے اتنا ہی آپ ناکامی کے قریب ترین ہوتے ہیں۔

یقین حقیقت سے دو قدم کی دوری کا نام ہے، وہ چاہے آپ کا یقین کامیابی کی صورت پر ہو یا پھر ناکامی حالت پر۔

 ایک مظبوط یقین ایک وقت گزرنے کے بعد وہی شکل اختیار کر لیتا ہے جو آپ نے نتائج کے بارے میں قائم کیا ہوا ہوتا ہے۔

آج تک کوئی بھی انسان یقین کے ساتھ کچھ حاصل کرنے کی کوشش کی ہو اور پھر حاصل نہ ہوا ہو ایسا کبھی بھی نہیں ہوا ہے۔

آج تک کوئی شخص عدم اعتماد کے ساتھ کچھ بڑا حاصل کر گیا ہو ایسا بھی کبھی نہیں ہوا ہے۔

بہت کچھ ممکن ہے اگر کرنے کا یقین ساتھ ہو اور کچھ بھی آسان نہیں اگر کسی کام کے ہونے پر صرف شک ہو کیونکہ دنیا عملی یقین سے حاصل ہوتی ہے۔

کچھ نہ کرنے والے مزاج کے ساتھ دنیا میں کچھ بھی آسان نہیں جبکہ کچھ کرنے کے یقین کے ساتھ آگے کو بڑھنے والوں کیلئے بہت کچھ ممکن ہے۔

ہمیشہ بڑے کارنامے سر انجام دینے والوں کی اکثریت کو صرف لفظ ممکنات وہ بھی اپنی ڈھکی چھپی صورت میں ہی حاصل تھا۔ 

وہ اس کے ساتھ آگے کو بڑھتے گئے اور دنیا کو وہ کچھ دیا جس سے پہلے دنیا خالی تھی۔

کسی کام کو انجام دیتے ہوئے یقین کے ساتھ چاہیے اس کے ہونے کی توقع خواب کی صورت تک ہی کیوں نہ محدود ہو آپ کا یقین کہ کچھ بھی دنیا میں کرنے سے ممکن ہے تو خواب حقیقت کی صورت لے لیے گئے اور ہمیشہ یقین کے ساتھ آگے کو بڑھنے والوں کے ساتھ یہ معجزات دنیا میں کئی بار ہوئے ہے۔

ایک وقت تھا جب کوئی ہواؤں میں اڑنے کا تصور کرتا تو اُسے احمقوں کے امام ہونے جیسے خطابات سے نوازا جاتا تھا، اس سوچ کو کچھ ایسا خیال کیا جاتا جیسا کہ آج کے دور میں شدید سخت قسم کے عاشق اپنی محبوباؤں سے آسمان پر سے ستاروں کو توڑ کر لانے کا کہتے ہیں۔ اسی طرح لوگ اپنی اڑنے کی خواہشات کی دلی تسکین کے لیے جادوئی قالینے اور اڑنے والے گھوڑوں کی کہانیاں سن کر یا لکھ کر دلوں کو بہلاتے پھسلاتے۔

رائٹ برادران کو اسی طرح اڑنے والے طرز کا ان کے والد نے پچپن میں ایک کھیلونا خرید کر دیا جو ہوا میں اڑتا تھا۔ اس کھیلونے کا ان کی طبیعت پر ایسا اثر ہوا کے وہ اپنے پچپن میں ہی سے ہواؤں میں اڑنے کے خواب دیکھنے لگے۔ 

وہ اڑتے ہوئے پرندوں کو دیکھتے تو دل ہی دل میں اڑنے کی تمنا کرتے اور سوچتے کہ کوئی ایسی مشین ہو جس پر ہم بیٹھ کر ہواؤں میں پرندوں کی طرح سیر کریں اور پھر انہونے اس خواب کو جو انسانیت کے وجود میں آنے سے اب تک سب سے بڑی ایجادات میں سے ایک ایجاد جہاز کر ڈالی کیونکہ وہ خوابوں کو حقیقت میں تبدیل کرنے کا عزم رکھتے تھے اور اس کے لیے ہر قسم کی قربانی بھی دی یا پھر ہم یہ کہہ تو غلط نہ ہوگا کہ اس خواب کیلئے پوری زندگی دونوں بھائیوں نے وقف کر دی۔ جب انہونے کہا کہ وہ ایک اڑنے والی مشین کا تجربہ کرنے والے ہیں تو نیویارک ٹائمز نے کچھ دن پہلے ان کے بارے میں بے وقوف اور احمق لکھتے ہوئے کہا کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے ؟

لوگ اس معجزے کو مانے ہی نہیں۔

 جب پہلا تجربہ کیا گیا تو صرف پانچ لوگ دنیا کے سب سے بڑے معجزے کو دیکھنے کے لئے وہاں پر موجود تھے۔ رائٹ برادران کے اپنے علاقے کے اخبارات نے اس کو اتنا اہمیت دی کہ وہاں پر اپنا کوئی ایک نمائندہ بھیجنا گوارا نہ کیا۔ مگر دنیا نے دیکھا کہ انہونے دنیا کی سب سے پہلی ہوا میں انسانی اڑان بھرنے کے بعد دنیا کو حیران کرتے ہوئے یہ پیغام دیا کہ اس یقین کی طاقت سے کچھ بھی ممکن ہے اور دنیا کو پھر بھی اس معجزے کو تسلیم کرنے کے لیے کئی سال لگیں کہ اب انسان ہواؤں میں اڑ سکتا ہے۔

دنیا میں کوئی بھی معجزہ جو انسان نے انجام دیا اس کے پیچھے ایک مظبوط یقین کے کرشما ہوتا ہے۔

خواب اور حقیقت کے درمیان کا فاصلہ صرف عملی یقین کا ہوتا ہے۔

انسانی پرواز کا تعین اس کا عملی یقین ہی کرتا ہوتا ہے۔

انسان کے عمل کو حقیقت کی صورت اختیار کرنے کیلئے اتنا امکانات ہوتے ہیں جس قدر اس کے ہونے پر یقین ہوتا ہے۔

انسان کا عمل جتنا بھی طاقتور ہو لیکن اس کا یقین اس کے ہونے پر کمزور ہے تو وہ انسان عمل کے باوجود بھی ان نتائج کو وجود نہیں دے سکتا ہے جو اس کے من چاہیے ہو۔

دنیا میں کچھ بھی حاصل صرف ارادے کی دوری پر کھڑا ہوتا ہے اور وہ کچھ انسان کو حاصل بھی ہو جاتا ہوتا ہے اور اگر یقین نہ ہو تو پھر ایسے عمل سے بھی کچھ حاصل نہیں ہوتا ہے۔

کسی بھی کام کو انجام دینے کیلئے یقین کے ساتھ اٹھایا گیا پہلا قدم اس کے آدھا ہوجانے جتنا اہمیت رکھتا ہوتا ہے، جب آپ پختہ یقین کے ساتھ یہ کہتے ہے کہ یہ میں کر سکتا ہوں۔

 عمل خود ایک بذات بڑی طاقت ہے۔ ایک انسان عمل سے ہی خوابوں کو حقیقت دیتا ہوتا ہے لیکن اگر عمل میں یقین کی روح نہ ہو تو پھر اس مردہ عمل سے انسان کو کچھ حاصل نہیں ہوتا ہے کیونکہ یقین کامیابی کے جسم میں روح کا کردار ادا کرتا ہوتا ہے۔

عمل اور یقین کا رشتہِ ایسا ہے جیسے بیج اور زمین کا، اگر ان دونوں میں سے ایک کی بھی کوالٹی میں کمی ہو تو اس کا سیدھا اثر نتائج پر پڑتا ہوتا ہے۔

لوگ عمل کرتے ہیں لیکن اس کے ہونے کے باوجود یقین کی عدم موجودگی کی وجہ سے وہ کچھ ثمرات کبھی بھی ان کو حاصل نہیں ہوتے ہیں کیونکہ یقین بغیر انسان کا کوئی بھی عمل مردہ ہے اور کسی بھی مردہ عمل سے صحت مند نتائج اخذ کرنے کی خواہش جو کبھی بھی حقیقت نہیں ہوسکتی ہے۔

میل فشر کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ 17 سالوں تک سمندر کہ تہہ میں خزانے کو ڈھونڈتا رہا اور پھر 4 سو ملین ڈالر کی مالیت کا سونا ڈھونڈنے میں کامیاب ہوگیا، وجہ عملی یقین تھا۔ جو ہر روز نئی صبح کے ساتھ یہ کہتے ہوئے شروعات کرتا ہوتا تھا کہ آج کا دن ہی تو اصل دن ہے اور شام کو اس جملے کے ساتھ اپنے کام کا اختتام کرتا ہوتا تھا کہ کل اصل معرکہ ہوگا۔

آپ کا یقین ہی حقیقت ہے اور حقیقت ہی یقین ہے۔

اس وجہ سے ہمیشہ نتائج کا حاصل ہمارے یقین جیسے ہی ہوتا ہے۔

پچھلی صدی کی بات ہے کہ ایک چرچ میں فادر خطاب کررہا تھا اور کہا کہ اگر آپ میں گندم کے دانے کے برابر بھی کسی چیز کے حصول پر یقین ہے تو پھر آپ پوری دنیا کو جیت سکتے ہیں۔

  اس واعظ میں ایک لڑکا جس کی ایک ٹانگ پولیو کی بیماری کی وجہ سے خراب ہونے کے باعث اس کے ساتھ وہ ٹھیک سے چل تک نہیں سکتا تھا۔ وہ فادر کی یہ خوبصورت بات سن کر پوچھنے لگا کہ کیا یہ سب کچھ جو آپ نے ابھی کہا وہ سچ ہے ؟

تو اس پر فادر نے کہا ہاں یہ سچ ہے۔ 

کیونکہ فادر نے بائبل کے الفاط جو کہتے ہیں کہ اگر آپ میں ایمان سرسوں کے دانے کے برابر بھی موجود ہے، تب آپ کے لیے کوئی بھی کام مشکل نہیں ہوگا۔

یا پھر ایک اور جگہ بائبل مقدس میں ہے کہ ایمان ویقین اتنا طاقتور ہے کہ پہاڑوں کو بھی ہلا سکتا ہے، کی طرف اشارہ تھا۔

  اس ایک جملے نے اس لگڑے لڑکے کی زندگی پر ایسا اثر ڈالا کہ وہ ایک خوبصورت آنکھوں میں سجائے خواب کے ساتھ وہاں سے چلا گیا اور

پھر اسی یقین کو اپنا اوڑھنا بچھونا بناتے ہوئے اپنے خواب کو حقیقت کی شکل دینے کیلئے چلنے سے دوڑنے کی جدوجہد میں لگ گیا۔

 پھر وہی لڑکا آنے والے وقت میں دنیا کا سب سے بڑا تیز ترین بھاگنے والا شخص کارل لیوس کہلایا جس نے اولمپکس میں کئی گولڈ میڈل حاصل کیے۔

ایک انسان کے پرواز کی اڑان اتنا ہی اونچی ہوتی ہے جتنا کہ اس کو اپنی پختہ سوچ کے ساتھ حقیقت میں واقع ہونے پر یقین ہوتا ہے۔

بغیر یقین آپ کی زندگی میں کبھی بھی سنہرے دن کا سورج طلوع نہیں ہوسکتا اور یقین کی روشنی ہی آپ کے اندر کو روشن کر دیتی ہے اور آپ وہ سب کچھ جو چاہتے ہیں اس کو پالینے کی طاقت کو محسوس کرنے لگتے ہیں اور یہ احساسات یقین کی عدم موجودگی کی صورت میں کبھی میسر نہیں ہوتے ہیں۔

آپ اس وقت تک جیت نہیں سکتے ہیں جب تک آپ اپنی جیت کے حصول پر یقین نہیں رکھتے ہے، آپ کو کوئی بھی اس وقت تک ہڑا نہیں سکتا جب تک کہ آپ خود نہ ہاڑ مان نہ لے۔ اگر بظاھر آپ ہاڑ بھی جائے تو یہ ایک قدرت کا قانون ہے کہ کوئی بھی شخص کبھی بھی ایک دم سے کے ٹو کی چوٹی سر نہیں کر لیتا۔ شکست تو تب کہلائے گئی جب آپ اپنے اندر سے اسے تسلیم کر لو گے کہ میں یہ نہیں کرسکتا ہوں۔

 کچھ لوگ ناکامی کے لفظ سے خوف کھاتے ہیں اور ہمیشہ کچھ بھی نہیں زندگی میں غیر معمولی کر پاتے۔

 ہمارے ہاں دیہاتیوں میں اونٹ جیسے قوی ہیکل جانور کو ایک چھوٹا سا پچہ جس کو دائیں اور بائیں کا بھی پتہ نہیں ہوتا، جدھر دل کرتا ہے ادھر گھوماتا پھرتا ہے۔ چاہیے پھر اسے ایک چھوٹی سی لکڑی کے ساتھ ہی کیوں نہ باندھ دیا جائے۔

 خوف بھی انسان کے ساتھ اس سے مختلف رویہ نہیں برتتا۔ یہ ہمیشہ ایک جگہ پر انسان کو باندھ کر رکھ دیتا ہے۔

 کسی چیز کی ناکامی کا خوف ہمیشہ ایک غلط طرزِ فکر کا نتیجہ ہوتا ہے۔ یہ دنیا کی واحد چیز ہے جس کا کسی قسم کا وجود نہ ہونے کے باوجود بھی یہ کروڑوں لوگوں پر حکمرانی کرتا ہے اور اس کی غلامی میں رہنے والے اس کے رحموں کرم پر اپنی پوری زندگیاں کچھ کیے بغیر گزار دیتے ہیں۔

یہ دنیا کی واحد چیز ہے جو کچھ نہ ہوکر بھی بہت کچھ ہے اور اتنا کچھ ہے کہ ہر دوسرے شخص کو یہ خوف ہوتا ہے کہ میرے پاس بہت سے عمدہ الفاظ تو ہیں مگر لوگوں کے سامنے بولے نہیں جاتے، مہارت تو ہے مگر اس کا لوگوں کے سامنے اظہار نہیں کیا جاتا ہے، سوال تو ہیں مگر سامنے والے سے کر نہیں سکتا، اچھی تو لگتی ہے مگر بات کرنے پر بات بگڑ نہ جائے اور کام کرنے کا ارادہ تو ہے پر ناکامی کا منہ نہ دیکھنا پڑ جائے۔

چیزوں کے درمیان جتنا آپ کا فاصلہ ہوتا ہے اتنا ہی خوف حاوی رہتا ہے لیکن خوبصورت بات یہ ہے کہ جب آپ ایک بار چاہیے ناکام ہی صحیح کرتے ہوتے ہیں تو درمیان میں خوف کی موت ہوکر رہ جاتی ہوتی ہے۔ 

خوف کی عمر کچھ نہ کرنے تک ہی ہوتی ہے۔ آپ کا یقین کے ساتھ بڑھایا گیا پہلا قدم خوف کی موت واقع ہوتا ہے۔

خوف آپ کا ایسا دشمن ہے جسے آپ فوراً مار دے، نہیں تو پھر یہ آپ کو مار دیتا ہے اور اگر آپ اسے مارتے ہے تو یہ چند لمحوں میں ہی مر جاتا ہے، نہیں تو اگر آپ کو یہ مارتا ہے تو یک دم مارنے کی بجائے جب تک آپ مر نہیں جاتے ہے یہ آپ کو مارتا رہتا ہے۔

اگر آپ کے ہمراہ خوف ہے تو آپ کی منزل ناکامی ہے اور امید اچھے کی آپ کو کامیابی کی رہ پر ڈال دیتی ہوتی ہے۔

ہر وہ چیز جو انسان کو کمزور کرتی ہوتی ہے جیسے کہ احساسِ کمتری کا ہونا، ناکامی کی صورت میں ذمّہ داری کا قبول نہ کرنا اور قابلیت میں کمی کا ہونا یہ سب چیزیں انسان کے یقین کو کمزور کرتی ہوتی ہیں۔

ہم ان کے زندگی پر اثرات کے ساتھ ان کی وجوہات کا آگے کے باب کے حصے میں تفصیل سے جائزہ لیتے ہے۔