غیر معمولی زندگی ایک وقت کے بعد نشوونما پاتی ہے۔
ایک بار مشہور مصور پابلو پکاسو کہیں سے گزر رہے تھے کہ ایک عورت نے اسے دیکھا تو بھاگی بھاگی جا کر ملی اور پوچنے لگی کیا آپ پابلو پکاسو ہے ؟
تو اس پر آپ نے کہا ہاں میں ہی ہو اور پھر پکاسو کے پوچھنے پر کہ کیا آپ کو مجھ سے کچھ کام تھا ؟
تو وہ عورت آپ سے ایک پینٹنگ اپنے لیے بنوانے کی درخواست کی اور کہا کہ آپ میرے بہت پسندیدہ شخصیات میں سے ایک ہے۔ تو اس پر آپ نے ایک کاغذ پر کچھ ہی لمحوں میں چند اوپر نیچے لکیرے کھینچ کر دیتے ہوئے کہا کہ اس پینٹنگ کی قیمت پچاس لاکھ ہے۔
تو وہ عورت بے یقینی کے ساتھ زبان سے شکریہ ادا کرتے ہوئے وہاں سے چلی گئی۔
اسے اس بات پر یقین نہیں آرہا تھا کہ چند لمحوں میں بنائی گئی پینٹنگ اتنا مہیگی ہو سکتی ہے۔ وہ اپنے دل کی تسلی کیلئے اسے ایک بڑے سٹور میں لئے جا کر اس کی قیمت کا پتہ کیا تو وہی پچاس لاکھ روپے کی ہی بولی لگی۔
اس کے بعد وہ عورت ایک دل میں تمنا لے کر پابلو پکاسو کو دوبارہ ڈھونڈا اور مل جانے پر کہا کہ مجھے بھی یہ ہنر آپ سے سیکھنا ہے کہ کچھ ہی لمحوں میں اتنا بڑی رقم کیسے کمائی جاتی ہے ؟
تو اس پر پابلو پکاسو نے کہا کہ مجھے یہ سیکھنے کے لئے 30 سال لگئے اور آپ کو کچھ ہی لمحوں میں یہ کچھ سیکھنے کی خواہش ہے۔
جو جتنا اور جہاں پر زندگی کو خرچ کرتا ہوتا ہے، اسے اتنا اور وہی کچھ ہی دنیا سے حاصل رہتا ہے۔
ہر شخص اپنی زندگی کا انتخاب کرنے پر مکمل اختیار رکھتا ہوتا ہے، جو لوگ کچھ کیے بغیر مشکل حالات کے سامنے سرنگوں ہوتے ہوئے ہاڑ مان بیٹھتے ہیں، پھر ان کی زندگی آنے والے وقتوں میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے مشکلات، ناکامیوں اور مایوسیوں کی وجہ سے عذاب سی بن جاتی ہے۔ یہ سب کچھ انسان خود کماتا ہے اپنے ماضی کے گناہوں کی بدولت اور جبکہ کامیاب لوگ اپنی زندگی کا ہر لمحہ بہتری کی طرف استعمال کرتے ہوئے مشکلات کا بڑے خندا پیشانی کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے بغیر تھکے ہارے آگے کو بڑھتے چلے جاتے ہیں اور ایک وقت آتا ہے جب یہ لوگ کندن سے بن جاتے ہیں۔
پھر ایسے لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی قسمت اتنا اچھی ہے کہ یہ چاہیے تو مٹی کو ہاتھ لگا کر سونا بنا دے۔ لیکن یہ کہنے والے لوگ اپنی یاداشت کے کمزور ہونے کی وجہ سے بھول بیٹھتے ہیں کہ یہ شخص کتنا عمر آگ میں جھلستا رہا اور تب جاکر یہ معجزات اپنے ہاتھوں سے انجام دینے کے قابل ہوا ہے۔
اس دنیا میں جو جتنا زیادہ روشنی سے آج چمک رہا ہے وہ اتنا ہی زیادہ اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ مصائب و مشکلات کی بھٹی میں ایندھن کی طرح جھلس کر گزارا ہوتا ہے۔
لوگ ہمیشہ کامیاب لوگوں کا چمکنا دیکھتے ہوتے ہیں لیکن اس چمکنے والے کا آگ میں کئی سالوں تک جھلستے رہنا نظر نہیں آتا ہوتا ہے۔
ہمیشہ لوگ کامیاب انسان کا آج دیکھتے ہے اور پھر حیران ہو کر رہ جاتے ہوتے ہیں کہ اس نے راتوں رات اتنا بڑا کارنامہ کیسے سر انجام دیا ؟
جتنا بڑا اوپر کی جانب درخت ہوگا اتنا ہی اس کے نیچے کی جانب جڑے ہوگئی، جتنا بڑی عمارت ہوگی اتنا زیادہ بڑی اور مظبوط نیچے کی جانب اس کی بنیادیں ہوگئی ٹھیک ایسے ہی جتنا ایک انسان کی بڑی کامیابی ہوتی ہے اتنا ہی بڑی اس کے حاصل کیلئے اس کی قربانیاں ہوتی ہیں اور لوگ ہمیشہ جڑ کو نہیں درخت کو دیکھتے ہے۔
دنیا میں کوئی بھی چیز یا شخص عمدہ لگے تو اس کی موجودہ حالت کو نہیں بلکہ اس کے ماضی کی طرف چند ایک قدم بڑھ جائے اور دیکھے جانے کہ اس کے یہاں تک وجود میں آنے کیلئے اس نے کیا کچھ کیا ہے ؟ تو تب آپ اس حقیقت کو جان پاؤں گئے جو اس وجود کو بخشنے کا باعث بنی۔
ہر کامیاب شخص کے ماضی کو جاننے پر آپ کو کئی کہانیاں ملے گئی، اور آپ کو جو چیز نوازے گئی وہ اس کا حاصل نہیں بلکہ وہ کتنا بار ٹھوکر کھایا اور پھر کھڑا ہوا، وہ کتنا بار لوگوں کے ہاں ٹھکرایا گیا اور اس نے اس کامیابی کے حاصل کیلئے اپنا کیا کچھ قربان کیا ؟ یہ چیزیں اسباق کا ایسا ذخیرہ ہیں جو آپ کی زندگی کو ایک اور رنگ دینے میں نمایاں کردار ادا کریں گئی۔
کامیابی اپنے قند کے حساب سے خراج لیتی ہوتی ہے اور اگر آپ خراج دینے کے اہل نہیں ہے تو پھر کامیابی کے بھی اہل نہیں۔
کچھ مزدور لوگ اپنی کمپنی کے مالک سے بات کرتے ہوئے اس سے پوچھا کہ جناب آپ تو ہم میں سے ہی ایک تھے مگر راتوں رات اتنا بڑی کامیابی کے حاصل کا راز کیا ہے ؟
تو مالک اس سوال کا جواب دے بغیر چلا گیا۔
کچھ دن بعد سب کے دماغوں سے یہ بات جاتی رہی۔
ایک دن مالک نے ان سب لوگوں کو اپنے پاس بلا کر ان کے ہاتھوں میں ایک ایک غبارہ تھامتے ہوئے اس میں ہوا بھرنے کو کہا۔
جب سب نے ویسے ہی کیا تو اس پر مالک نے کہا کہ دس منٹ تک جس کسی کے پاس پھولا ہوا غبارہ سلامت رہا تو اسے آگے کو ترقی دے دی جائے گئی۔
اس کے ابھی الفاظ بامشکل ختم ہی ہونے پائے تھے کہ سارا کا سارا ماحول میدان جنگ کا منظر پیش کرنے لگا اور وہ سب لوگ ایک دوسرے کے غبارے پھوڑتے ہوئے اور اپنے غبارے کو پچانے میں لگ گئے۔
کچھ ہی وقت میں سب کے ہاتھ پھولے ہوئے غباروں سے خالی تھے۔ تو اس پر مالک نے کہا کہ میں نے آپ سے یہ کہا تھا کہ جس کے ہاتھ میں غبارہ ہوگا اس کو ترقی ملے گئی نہ کہ یہ جس ایک کے ہاتھ میں غبارہ ہوگا وہ شخص ترقی کا حق دار ٹھہرے گا۔
اگر آپ سب ایک دوسرے کے غبارے نہ پہوڑتے تو آپ سب اس چیز کے حق دار ٹھہرتے اور یہی چیز ہے جو مجھے کامیاب اور آپ سے جدا بناتی ہے۔
کیوں کہ میں حسد سے دوڑ رہتے ہوئے کسی سے کچھ چھیننے پر نہیں بلکہ اپنی محنت کے بل بوتے کے ساتھ چیزوں کو خود سے کمانے پر یقین رکھتا ہوں کیوں کہ میں چیزوں کو اپنی محنت کے بل بوتے پر حاصل کرنے پر یقین رکھتا ہوں اور پھر حاصل بھی کر لیتا ہوں۔
مگر تم دوسروں کی چیزوں پر گدھوں کی طرح آنکھیں رکھتے ہوں کہ کسی طرح یہ چیز ہماری ہوجاے۔
مگر کامیابی کمانی پڑتی ہے اور میں نے کمائی ہے اور آپ بھی جس دن کچھ کمانے کا عزم کرتے ہوئے شروع ہو جائے گے تو پالوں گئے، وہ چاہے کامیابی ہو یا پھر دنیا سب کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے مگر ہر حاصل کی کچھ قیمت ہوتی ہے اور بغیر کچھ قیمت کچھ بھی دنیا میں حاصل ممکن نہیں۔
زندگی میں تب تک کچھ من چاہا نہیں ملتا ہوتا جب تک اس سے پہلے بہت کچھ ان چاہا برداشت نہ کیا جائے۔
آج آپ جن اعمالوں کی سر زمین پر کھڑے ہے آنے والے کل میں یہی سے نتائج وصول ہوگئے۔ عقل مند اس پر وہی کچھ بوتا ہے جو کچھ اسے کل کو چاہیے لیکن ایک احمق انسان بوتا کچھ ہے لیکن قدرت سے خواہش اس کے برعکس کی کرتا ہوتا ہے جو کہ فطرت کے قانون کے برعکس ہے۔
یہ دنیا سب کیلئے مشترکہ ہے، اس میں موجود ہر اس چیز پر آپ کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کہ کسی دوسرے کا، لیکن یہاں پر حاصل صرف اسی کو ہی ہوتا ہے جو اسے خود سے کماتا ہوتا ہے اور یہ دنیا کا اصول ہے یہاں پر کمائے بغیر کچھ حاصل نہیں ہے۔
دنیا نے ہمیشہ ان لوگوں کو اپنی پلکوں پر بیٹھایا جن لوگوں نے کچھ کرنے کے عزم کے ساتھ اس آخری حد تک گئے جس حد تک وہ جاسکتے تھے اور پھر انہیں وہ کچھ حاصل رہا جو کچھ انہوں نے اپنی زندگی سے چاہا۔
آپ بھی وہ سب کچھ حاصل کرسکتے ہیں جو آپ کو زندگی سے چاہیے اور جو کچھ آپ زندگی سے چاہتے ہے اس سے کہیں بڑھ کر آپ میں قابلیت ہے۔ زندگی کبھی بھی کسی کو خود سے نہیں نوازتی ہوتی ہے بلکہ وہی کچھ دیتی ہے جس کیلئے آپ جدوجہد کرتے ہوتے ہے۔ کچھ کرنے والوں کیلئے دنیا میں ہمیشہ سے بہت کچھ رہا ہے اور جس کی کوئی حدود نہیں جبکہ کچھ نہ کرنے والوں کیلئے نہ کچھ کل تھا اور نہ کچھ آج ہے اور نہ ہی آگے کو کبھی کچھ ہوگا۔
دنیا ایسے لوگوں کو دونوں ہاتھوں سے نوازتی ہوتی ہے اور وہی کچھ جو کچھ انہیں دنیا سے چاہیے ہوتا ہے جو اس کے حاصل کی پہلے قیمت ادا کرتے ہوتے ہیں۔
دنیا کسی انسان کی جاگیر نہیں اور اگر ایسا ہوتا تو یہ صرف چند ایک خاندانوں یا پھر کچھ گرہوں ہی ہمیشہ سے اس پر قابض ہوتے بلکہ یہ قدرت کی ملکیت ہے اور قدرت صرف انہیں کو ہی دنیا سے نوازتی ہوتی ہے جو خود کو قدرت کے ہاں اہل ثابت کرتے ہوتے ہیں۔
یہ کائنات قدرت نے بنا دی ہے اور اس کے اندر مختلف اقسام کے رنگوں کو قدرت نے بکھیر دیا ہے۔ اب یہ آپ کے ہاتھوں میں ہے کہ آپ اپنی زندگی کو کون سا رنگ دینا چاہتے ہیں اور اس پر ناصرف آپ قدرت رکھتے ہے بلکہ خود قدرت بھی اس چیز میں آپ کی معاون ہو جاتی ہے اگر آپ اس کے حصول میں کسی قسم کی کسر نہیں چھوڑتے ہے۔
ہم مستقبل میں وہی رنگ اپنی زندگیوں میں دیکھتے ہوتے ہیں جو ماضی میں اپنے فیصلوں پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگیوں میں بھرتے ہیں، ہمارا مستقبل سیاہ خود سے نہیں ہو جاتا ہے یہ ہم ہی ہوتے ہیں جو اپنے عمل سے اس رنگ کو ماضی میں بھرتے ہوتے ہیں، جو مستقبل میں ہمیں حقیقت کی صورت میں دیکھنے کو ملتا ہوتا ہے اور جس پر ہم شدبد کھڑے قسمت پر سارا ملبہ ڈال دیتے ہوتے ہے۔ جبکہ یہی ہمارے اپنے اعمالوں کی فصل ہوتی ہے جو ہم ماضی کی زمین پر بیجوں کی صورت میں بوئی ہوتی ہیں۔
اگر آپ کو یہ آج شکوہ ہے کہ میرے پاس کچھ بھی نہیں تو زندگی کو بھی آپ سے یہی شکایت ہے کہ آپ نے ماضی میں کچھ ایسا کیا ہی نہیں اور جہاں پر آپ نے زندگی کو خرچ کیا وہی کچھ ہی آج حقیقت کی صورت میں آپ کے پاس وجود رکھتا ہے۔
زندگی کے سب سے بڑے مجرم ہم خود ہی ہوتے ہیں لیکن شکوہ ہمیشہ زندگی سے کرتے ہیں، زندگی ہمارے ہاتھ میں ہے ناکہ ہم زندگی کے ہاتھوں میں، آج ہم جہاں پر بھی کھڑے ہے یہ ہمارے گزرے ہوئے کل کے کیے گئے اعمالوں کا ثمر ہے اور آنے والے کل میں جو کچھ بھی ہوگئے وہ ہمارے آج کے اعمالوں کا صلح ہوگا۔
انسان کو کوئی بھی دوسرا شخص اس قدر نقصان نہیں دیتا ہوتا جتنا کہ ایک انسان خود اپنی ذات کو دیتا ہوتا ہے، اس کا ایک فیصد بھی دوسرے لوگوں سے نہیں ہوتا ہے۔ ہماری زندگی ہمارے ہاتھ میں ہوتی ہے اور اس پر دوسروں کا حق تب جاکر ہوتا ہے جب ہم خود سے ہی اس کی اجازت دیتے ہوتے ہے۔ ایک انسان کے ساتھ جو کچھ دوسرے کرتے ہیں وہ حقیقت سے دگنا انسان کو دیکھائی دیتا ہوتا ہے جبکہ جو کچھ وہ خود زندگی کے ساتھ کرتا ہوتا ہے وہ کبھی بھی اسے نظر تک نہیں آتا ہوتا اور حقیقت میں ایک انسان کی ناکامیوں کی وجہ اپنے ہی اعمال ہوتے ہیں ناکہ کوئی اور دوسرے۔
ہماری زندگیوں پر کسی کا کنٹرول، ہمارے فیصلوں پر کسی دوسرے کی بالادستی، ہماری سوچوں پر خوف کا ہونا یہ سب کچھ ہمارے اپنا ہی انتخاب ہوتا ہے اور ناکہ کسی اور کے چاہنے یا پھر نہ چاہنے سے کچھ ہوتا ہے۔
اگر ہم صرف اپنے آپ کے ساتھ مخلص ہو جائے چاہیے سب کچھ حالات واقعات ہمارے خلاف ہی کیوں نہ ہو تب بھی اپنے حساب کے من چاہیے نتائج پیدا کر سکتے ہیں اور وہ بھی زندگی کے کسی بھی موڑ پر کیوں نہ کھڑے ہو۔
ہماری ناکامیوں اور محرومیوں کے پیچھے صرف اور صرف ہمارا خود کا ہی ہاتھ ہوتا ہے، یہ ہم ہی ہوتے ہیں جو خود کی ذات کے ساتھ مخلص نہیں ہوتے ہیں۔ اگر آپ اپنی ذات کے ساتھ مخلص نہیں تو پھر دوسرا کوئی بھی آپ کو کچھ فائدہ نہیں دے سکتا ہے، ایک شخص نشہ آور ادویات کا استعمال کرتا ہے لیکن ڈاکٹر کے مخلص ہونے سے کچھ فرق نہیں پڑے گا، ایک شخص ضرورت سے زیادہ خوراک کھاتا چلا جاتا ہوتا ہے۔ جب اس کو خود کی صحت کی ہی فکر نہیں تو پھر اوروں کے چاہنے یا نہ چاہنے سے اس کی زندگی پر کچھ فرق نہیں پڑتا ہوتا ہے، ایک شخص ہر وقت کہتا پھرتا ہے کہ میری تو قسمت خراب ہے اور اس پر ہوسکتا ہے کہ ایک دو بار اس کی انسانی ہمدردی کے ناطے امداد کردی جائے لیکن ہمیشہ کیلئے کبھی کیوں ساتھ نہیں کھڑا ہوگا، اگر آپ اپنے نہیں تو کسی دوسرے کے بھی نہیں ہوسکتے اور ٹھیک ایسے ہی دوسروں کیلئے بھی آپ میں کوئی دلچسپی نہیں ہوگی۔
آپ آج جہاں پر کھڑے ہے اسے کبھی بدلہ نہیں جاسکتا، جوکہ واقع ہونے کے بعد اب یہ ایک حقیقت کی صورت رکھتا ہے۔ لیکن آپ آگے کی زندگی میں کیا کچھ ہوسکتے ہیں یہ آپ کا خود کا انتخاب ہوگا اور اس کو حقیقی صورت دینے کیلئے اس کی ایک قیمت ادا کرنی ہوگی۔
زندگی میں کبھی بھی اس بات کی اہمیت نہیں ہوتی کہ آپ کیا ہے ؟ کیونکہ جس موجودہ حالت میں آپ کھڑے ہے یہ صرف آج کیلئے ہے اور ناکہ ہمیشہ کیلئے۔ اس لیے اہم یہ ہے کہ آپ اپنے آپ کو کس صورت میں دیکھتے ہے اور پھر اس خواب کو حقیقت کی شکل دینے کیلئے کیا قیمت ادا کرنے کیلئے تیار ہے ؟ اگر آپ خود کو کسی اور صورت میں جوکہ آج سے مختلف ہے اس میں دیکھنا چاہتے ہے تو موجودہ صورت میں جوکہ آج ہے اس کی کچھ بھی اہمیت نہیں۔
لوگوں کی اکثریت خود کی موجودہ حالت تو بدلنا چاہتی ہوتی ہے مگر اس کی وہ قیمت ادا کرنے کے بغیر جو کبھی ممکن نہیں۔
اس لیے اہم یہ نہیں کہ آپ زندگی سے کیا چاہتے ہے ؟ کیونکہ ہر شخص آپ کی طرح زندگی سے بہت کچھ چاہتا ہوتا ہے اور پھر اس کے حاصل کی کہیں زیادہ طاقت ہونے کے باوجود بھی انہیں وہ کچھ لاحاصل رہتا ہوتا ہیں بلکہ اہم یہ ہے کہ آپ اس حاصل کیلئے کیا کچھ کر سکتے ہیں ؟ اور یہی چیز دو لوگوں کی زندگیوں میں فرق ڈالتی ہوتی ہے، پہلے والے صرف چاہتے ہوتے ہے جبکہ دنیا کی حقیقت یہ ہے کہ یہاں چاہنے سے کبھی کچھ حاصل نہیں ہوتا ہے جبکہ دوسرے والے اس کی ہر قیمت ادا کرنے کیلئے تیار ہوتے ہیں اور اسطرح کے جذبے کے ساتھ دنیا میں سب کچھ ممکن ہے۔
زندگی ہر شخص کو مختلف دیتی ہوتی ہیں وہ چاہیے حالات ہو، تجربات ہو، ماحول یا پھر آپ کے اردگرد پائے جانے والے لوگ۔ جو آپ کے پاس ہے وہ دنیا میں ایک بڑی تعداد میں بسنے والے لوگ ان سب نعمتوں سے محروم ہیں اور ایسا بہت کچھ ہوگا جس سے آپ بھی ان دوسروں کی طرح محروم ہوگئے، جو کچھ آپ کے پاس ہے اس پر خوش رہے اور اس نعمتوں کے حاصل پر خدا تعالیٰ کے شکر گزار ہو جائے اور جو کچھ زندگی سے چاہیے اس کو صبر کے ساتھ پانے کی جدوجہد کرتے رہے۔ اگر زندگی نے اتنا کچھ بغیر کوشش دیا ہے تو پھر کوشش کے ساتھ کیا کچھ حاصل نہیں کیا جاسکتا ہے ؟
جو زندگی کو خود سے دینا تھا وہ کچھ وہ دے چکی ہے اور آگے بھی اسی طرح نوازتی رہے گئی اور جو کچھ آپ کو زندگی سے چاہے وہ بھی دے گئی مگر اس کی قیمت آپ کو چکانی پڑے گئی اور اس سے آپ اس کے بھی حقدار بن جائے گئے۔
دنیا کی مثال منڈی سی ہے جس میں کسی بھی چیز کے حاصل سے پہلے اس کی ایک قیمت آپ کو ادا کرنی پڑتی ہے اور بغیر قیمت حاصل تو دور قدرت اس کے قریب تک بھی نہیں بھٹکنے دیتی ہوتی ہے۔
جیسا کہ اگر آپ کو اچھی صحت کی خواہش ہے تو پھر اس کیلئے ایک صحت مند خوراک کے ساتھ روزانہ کی بنیاد پر ورزش اس کی ایک قیمت ہے، جس کے بغیر اچھی صحت کا خیال خواب ہے، علم چاہیے تو مشاہدات کے ساتھ غور وفکر کرنا اور زمانے کی چالوں کو پڑھنے کی مہارت خود میں پیدا کرنی ہوگئی اور ساتھ ساتھ بہترین کتابوں کا مطالعہ علم کے حاصل کی ایک قیمت ہے۔
ٹھیک ایسے ہی کامیاب تعلقات کیلئے جن پر تعلقات کی عمارت کھڑی ہوئی ہوتی ہے جیسا کہ دو لوگوں کے درمیان تعلق میں اعتبار، محبت، ایک دوسرے کے نظریات کا احترام، ایک دوسرے کو مکمل آزادی دینا اور ساتھ ساتھ ایک دوسرے کی پسند اور ناپسند کا خیال رکھنا اور ان کے ہونے سے ہی تعلق کی مظبوطی قائم رہتی ہوتی ہے لیکن پھر بھی دونوں اطراف سے یا پھر کسی ایک جانب سے مکمل طور پر ان چیزوں کو نظر انداز کیا جاتا ہوتا ہے اور جب اسطرح کا رویہ اپنایا جاتا ہے تو پھر اس کا انجام اس تعلق کا خاتما ہوتا ہے۔
ہر چیز کی اس کے معیار کے مطابق ایک قیمت ہوتی ہے بغیر وہ قیمت وہ معیار آپ کو لاحاصل ہے۔
آپ کسی بھی کام کو تھوڑی بہت کوشش کے بعد انجام تو دے سکتے ہے لیکن اس سے اس کے معیار کی عمدگی تک پہنچنے میں رہتے رہ جاتے ہے۔
جیسا کہ کچھ لوگ کسی چیز کے حاصل کیلئے اس کی قیمت خود کے حساب سے ادا کرتے ہوتے ہیں لیکن اس قیمت کے ساتھ نتائج سود سمیت اپنی مرضی کے حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہوتے ہیں جیسے ایک شخص رشتے کو قائم بھی رکھنا چاہتا ہے لیکن اپنے بد اخلاق مزاج پر قابو بھی نہیں کرتا ہوتا، ایک طالب علم مضمون کو پاس بھی کرنا چاہتا ہے لیکن اس کو مکمل طور پر وقت بھی نہیں دیتا ہوتا ہے تو پہلے تو فیل ہوگا، نہیں تو اتنا نمبر جو نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں اور اس کو کہتے ہے اپنے حساب سے اس چیز کی قیمت ادا کرنا اور پھر پہلے تو اسطرح اس کا حاصل ہوتا ہی نہیں اگر ہوتا بھی ہے تو نہ ہونے کے برابر۔
ہر ناکام انسان وہ چاہیے زندگی بھر کی ناکامی ہو یا پھر کسی مخصوص کام میں جس پر تقریباً ہر دوسرا شخص اپنی اس ناکامی کی ذمّہ داری قبول کرنے کی بجائے قسمت اور دوسرا حالات جیسے الفاظوں پر اس سب کا ملبہ ڈالتے ہوئے
اپنی ناکامیوں کو قبول کرنے کی بجائے ان بے جان الفاظوں کے پیچھے چھپتا پھرتا ہے۔
جو اپنی ناکامیوں پر خود کو ذمّہ دار قرار دیتے ہوتے ہے تو وہ کبھی بھی ناکام نہیں رہتے ہوتے ہیں کیوں کہ وہ خود کو فوراً ٹھیک کرتے ہیں۔
جس کا مطلب غلطی کو تسلیم کرنا اور غلطی کو تسلیم کرنے سے مراد نتائج کو بڑھانا جو کہ ہماری کامیابیوں کا انحصار نتائج کے اچھے اور برے ہونے سے جڑا ہوا ہوتا ہے۔
اچھے نتائج کامیابی کی جانب جبکہ برے نتائج ہمیں ناکامی کی رہ پر ڈال دیتے ہوتے ہیں۔
ہم ذمّہ داری کے موضوع پر آنے والے باب میں بات کریں گئے۔ ابھی ہم قسمت اور حالات ان کا ہماری زندگی میں کیا عمل دخل ہوتا ہے اس پر بات کرتے ہے کہ کس حد تک ہماری زندگیاں قسمت اور حالات کے تابع ہوتی ہیں ؟
قسمت اور حالات۔
کسی دانا آدمی سے پوچھا گیا کہ دنیا کے بارے میں سب سے بڑا جھوٹ اور سب سے بڑا سچ کیا ہے ؟ تو اس پر اس نے کہا دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ یہ ہے کہ میری قسمت میں نہیں تھا جبکہ حقیقت میں انسان کے عمل کی کمزوری ہی ہوتی ہے جس کی وجہ سے انسان کو وہ کچھ حاصل نہیں ہوتا ہے جو کچھ اسے زندگی سے چاہیے ہوتا ہے۔
ہوسکتا ہے کہ ایک انسان کی زندگی وہی کچھ ہو جو کچھ نصیب کی کتاب میں لکھا ہوتا ہے لیکن انسان کا نصیب وہی کچھ ہوتا ہے جو وہ اپنے عمل کی پنسل سے لکیر کھینچ دیتا ہے۔ دنیا میں کوئی بھی ایسا شخص نہیں ملے گا جس کے نصیب اس کے اعمال سے متضاد ہو اور اگر ایسا ہوتا تو یقیناً یہ فطرت کی بہت بڑی غلطی ہوتی جوکہ حقیقت میں فطرت غلطیوں سے پاک ہے۔
آپ کے اعمال بدلتے ہی آپ کے نصیب بھی فوراً بدل دے جاتے ہیں۔ انسان کی زندگی میں نصیب اور عمل کا کردار یہ ہے کہ ہمیشہ ایک انسان کی زندگی میں وہی کام ہوتے ہیں جو وہ کرتا ہوتا ہے اور جو وہ کام جنہیں انسان عمل سے انجام دینے کی بجائے نصیب پر چھوڑ دیتا ہوتا ہے وہ کبھی بھی زندگی میں واقع نہیں ہوتے ہیں۔
ہمیشہ خراب قسمت کچھ نہ کرنے والوں کی دیکھنے کو ملتی ہیں جبکہ کچھ کرنے والوں کی زندگیاں اس لفظ سے پاک ہوتی ہیں۔
دوسرا دنیا کا سب سے بڑا سچ یہ ہے کہ یہاں پر کچھ بھی مفت نہیں، ہر چیز کی ایک قیمت ہے جو تمہیں ادا کرنی پڑے گئی اور اس کے بعد ہی اس کا حاصل ممکن ہے۔
اگر دنیا صرف نصیب سے ہی ملتی تو مسجدوں، مندروں اور چرچوں کے ممبروں پر بیٹھے لوگ ہی دنیا میں چاروں اطراف چھائے ہوئے ہوتے۔
کیوں کہ یہی لوگ ہی ہوتے ہیں جو قدرت کے ہاں دنیا میں خاص ترین ہیں۔
دنیا میں موجود جو کچھ دوسروں کو حاصل ہے آپ بھی اس کے اتنا ہی حقدار ہیں جتنا کہ وہ دوسرے، بس فرق اتنا ہے کہ انہوں نے قیمت ادا کی آج ان کو وہ کچھ حاصل ہے اور آپ نے قیمت ادا نہیں کی اس وجہ سے ابھی تک وہ کچھ آپ کو لاحاصل ہے۔
آپ جو کچھ چاہتے ہوتے ہے اس کا حاصل بھی کچھ نہ کچھ آپ سے چاہتا ہوتا ہے۔ آپ وہ کچھ انجام دینے لگ جائے آپ کو وہ سب کچھ حاصل ہو جائے گا جو کچھ آپ کو زندگی سے چاہیے۔
جو لوگ زندگی سے توقع رکھتے ہوتے ہیں کہ زندگی انہیں خود سے نوازے گئی اور کچھ کئے بغیر نصیب کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں تو اس پر قدرت کی طرف سے عمر بھر کی محرومیاں ان کی زندگی کے خاطے میں ڈال دی جاتی ہوتی ہیں۔
دنیا میں بہت کچھ ایسا ہوتا ہے جو ہمارے نصیب میں ہونے کے باوجود بھی اس کا حاصل ہماری جدوجہد کے ساتھ جڑا ہوا ہوتا ہے اور جب ہم وہ جدوجہد اس کے حصول کیلئے نہیں کرتے ہوتے تو پھر وہ حاصل بھی لاحاصل ہوکر رہ جاتا ہوتا ہے۔
ایک بار سری دی رمن سے کسی نے کہا کہ سائنس کی زیادہ تر ایجادات معجزات کے ہونے سے ہوئی ہیں۔
تو اس پر آپ نے کہا ہاں لیکن یہ معجزے صرف سائنس دانوں کے ساتھ ہی ہوتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ معجزات زندگی میں ہوتے ہیں لیکن قسمت سے نہیں بلکہ جدوجہد کرنے والوں کی زندگیوں میں۔
لوگوں کو جو شکایات خود سے ہونی چاہیے بدقسمتی سے وہ نصیب سے کرتے ہوتے ہیں۔
قدرت کے ہاں کوئی خاص اور عام نہیں، اگر خاص اور عام میں تفرق ہے تو وہ آپ اپنے اعمالوں کی بنیاد پر ہے ناکہ قسمت کے اعلیٰ یا کم تر ہونا ہے۔
ہمیشہ دیکھا جاتا ہے کہ نصیب کو جواز بنا کر زندگی میں کچھ نہ کرنے والے لوگ اکثر غیر اہم چیزوں کیلئے جن کا زندگی میں ہونے یا نہ ہونے پر کچھ فرق نہیں پڑتا ہوتا اسطرح کی چیزوں کیلئے ہر طرح کی جدوجہد کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں لیکن جو چیز زندگی میں سب سے اہم ہوتی ہے اسے نصیب پر چھوڑ دیتے ہوتے ہیں۔
جیسا کہ اکثر زندگی کے اہم معاملات میں سوالات پر کہ آگے کا کیا ارادہ ہے ؟ دیکھتے ہیں، ابھی تک کچھ خاص سوچا نہیں۔
ویسے بھی ملنا تو وہی کچھ ہے جو کچھ نصیب میں ہوگا اور پھر تیرے میرے چاہنے سے کیا ہوتا ہے ؟
کسی کام کو انجام دینے کیلئے پوچھا جائے کہ کیا تیاری کی ہے ؟
نہیں۔
تیاری کے بغیر تو ناممکن ہے۔
بس دیکھا جائے گا اگر نصیب میں ہوا تو ضرور ہو جائے گا۔
جبکہ دوسری طرف کپڑے، سواری اور جسم کی ظاہری خوبصورتی کے معاملے میں یہ لوگ بڑے ہی تفکرات میں گھیرے رہتے ہوتے ہیں اور کوشش ہوتی ہے کہ بہتر سے بہترین دیکھنے کی۔
یہ کس قدر زندگی کے ساتھ نا انصافی ہے اور جبکہ معمولی چیزیں جن کے ہونے یا پھر نہ ہونے سے زندگی پر کچھ فرق نہیں پڑتا ہوتا ہے اس کو حد سے بڑھ کر اہمیت دینا جبکہ غیر معمولی کاموں کو قسمت پر چھوڑ دینا خود پر ظلم کے مترادف ہے۔
نصیب پر ایمان رکھنے سے انسان کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ جب ایک شخص کسی معاملے کو نصیب پر چھوڑ دیتا ہوتا ہے تو پھر پہلے تو وہ اس کے حاصل کیلئے کچھ زیادہ کوشش ہی نہیں کرتا ہوتا ہے اور اگر کرتا بھی ہے تو ایک کمزور کوشش کیوں کہ اسے اپنے عمل سے زیادہ نصیب جوکہ قدرت کی طرف سے نوازنے کا زیادہ یقین ہوتا ہے۔
اس پر جب انسان کو کسی چیز میں ناکامی ہوتی ہے تو پھر انسان یہ سوچ کر کہ قدرت کو ہی منظور نہیں تھا کیوں کہ یہ چیز میرے حق میں بہتر نہیں تھی، اس وجہ سے مجھے حاصل نہیں ہوئی ہے۔
قدرت نے میرے لیے اس سے زیادہ اچھا اور بہترین کا آگے کیلئے انتخاب کر رکھا ہوگا اور اس وجہ سے یہ چیز مجھے لاحاصل رہی ہے۔
یہ سوچ بہت عمدہ ہے
کیوں کہ اس سے لاحاصل پر جو انسان کو تکلیف ہوتی ہے وہ نہیں ہوتی۔
لیکن حقیقت اس سوچ کی یہ ہے کہ یہ خود کی ناکامی پر انسان کا سب سے بڑا بولا گیا خود کی ذات کو ایک خوبصورت جھوٹ ہے اور جوکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ کے عمل کی کمزوری ہی تھی جس کی وجہ سے وہ کچھ آپ کو لاحاصل رہی۔
اس کو ہم ایک واقع سے سمجھتے ہے، جو آپ نے بھی کئی بار اپنی زندگی میں اسطرح کے واقعات سنے اور دیکھے ہوگئے۔
میرا ایک دوست ایک لڑکی کو چند سالوں سے پسند کرتا تھا لیکن اس لڑکی نے کچھ عرصہ پہلے کسی اور جگہ پر شادی کر لی۔ جس کا اس کے ساتھ مجھے بھی بہت افسوس ہوا کیونکہ اکثر ہمارے درمیان ملاقاتوں میں اس لڑکی کی وہ چھوٹی بڑی باتیں مجھے بھی بتاتے ہوئے یہ کہتا کہ میں اس کے بغیر زندگی کا اب تصور بھی نہیں کر سکتا ہوں۔
اس کے دوسری جگہ پر شادی ہو جانے کے بعد اب اکثر یہ کہتے ہوئے کہ شاید میرے حق میں قدرت نے کچھ زیادہ اچھا لکھ رکھا ہوگا اور جیسے کہ وہ کہتے ہیں کہ جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں۔
جیسا کہ میں نے پہلے ہی کہا کہ یہ حقیقت میں بہت ہی خوبصورت فلسفہ ہے، لیکن اس کی اصل حقیقت یہ ہے کہ وہ مکمل طور پر کنگال ہے۔
آپ کسی چیز میں ناکام ہوئے کوئی بات نہیں، زندگی میں ہر شخص ناکام ہوتا ہے لیکن اپنی ناکامیوں کو قدرت کی طرف سے جواز بنا کر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ناصرف اس سے پیچھے کی جانب ہاتھ کھینچ لینا یہ سوچ کر کہ قدرت کو اس چیز کا میری زندگی میں ہونا منظور نہیں یہ ناسمجھی نہیں بلکہ حماقت کی آخری حد ہے۔
اس مزاج کے ساتھ آپ زندگی میں کبھی بھی کچھ غیر معمولی حاصل نہیں کر سکتے ہیں۔
کیوں کہ آپ کو جو کچھ نتائج کی صورت میں حاصل ہوگا آپ اپنے عمل کی بجائے اس کے برے ہونے پر قدرت کی طرف سے میرے لئے شاید یہی کچھ منظور تھا اس یقین کی مہر لگا کر خود کے پاس رکھ لے گئے جبکہ غیر معمولی کامیابی کے حاصل کیلئے انسان کو تب تک لڑنا پڑتا ہے جب تک اسے اپنے من چاہیے نتائج حاصل نہ ہو جائے اورجوکہ ایک وقت کے بعد ایسے مزاج کے لوگوں کو وہ نتائج حاصل ہو ہی جاتے ہیں۔
ہمیشہ دیکھا جاتا ہے کہ جو لوگ نصیب پر جتنا زیادہ یقین رکھتے ہوتے ہیں وہ عملی طور پر اتنا ہی زیادہ کمزور قسم کے لوگ ہوتے ہیں کیونکہ انہیں عمل کی بجائے نصیب پر زیادہ یقین ہوتا ہے کہ ہمارے کچھ کرنے یا پھر نہ کرنے سے کچھ فرق نہیں پڑتا ہوتا ہے بلکہ ہوگا وہی کچھ جو کچھ پہلے سے نصیب میں لکھا جا چکا ہے۔
اس فلسفے پر یقین رکھنے والے کسی بھی ایک شخص کو نشانے پر رکھ لے۔ اسطرح کے لوگ ہر معاشرے میں اور ہر جگہ پر موجود ہوتے ہیں۔
آپ دیکھیں گے کہ وہ شخص غیر معمولی کامیابی تو دور زندگی میں کبھی کچھ معمولی سی کامیابی بھی حاصل نہیں کر پائے گا کیونکہ اس میں عمل جو نتائج کو جنم دیتے ہوتے ہیں وہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔
جبکہ قدرت کبھی بھی آپ کو اس چیز سے نہیں نوازتی ہوتی ہے جس کیلئے تم خود کو پہلے اہل ثابت نہ کروں اور یہ قدرت کا قانون ہے جو کبھی بھی بدلا نہیں جا سکتا ہے۔
آپ کے درست یا غلط سے قدرت کو کوئی سروکار نہیں، ہا یہ اور بات ہے کہ آپ فطرت کے خلاف جائے گئے تو پھر ناکامی ہی ہوگئی۔
جب تک آپ عملی نہیں اور خود کو اس کا اہل ثابت نہیں کرتے ہوتے ہے، تب تک آپ کو قدرت کبھی بھی اس سے نہیں نوازتی ہوتی ہے۔
آج دنیا میں ہم بطور مسلم قوم اس چیز کی بہترین مثال ہیں۔
ہم خوابوں کی غذا کھاتے کھاتے حقیقت پسندی کا مزاج بھول بیٹھے ہیں، ہم جو کچھ بھی تھے وہ قصہ پارینہ بن کر رہ گیا ہے۔
عمل کرنے والے اور عمل نہ کرنے والے کبھی بھی قدرت کے ہاں ایک نہیں ہو سکتے ہیں۔
ہاں آپ درست ہونے کی وجہ سے شاید قدرت کے ہاں محترم ہو لیکن نتائج کا خود کو حقدار ثابت کرنے کیلئے آپ کو اپنے عمل سے اس کا اہل ثابت کرنا ہوگا اور اگر آپ نصیب نام کے سہارے بغیر کچھ کیے اس کا حاصل چاہتے ہوتے ہیں تو وہ کچھ خوابوں میں ممکن ہوسکتا ہے لیکن حقیقت کی دنیا میں ایسا کبھی کچھ نہیں ہوتا ہے، دنیا ہمیشہ سے عملی لوگوں کی رہی ہے۔
ایک لڑائی میں محمد علی نے اپنے حریف کو ایک مکا مار کر زمین پر ڈھیر کردیا۔
اس جیت پر آپ کو پچاس ہزار ڈالروں کے انعام سے نوازا گیا۔ تو اس پر کسی نے کہا کہ آپ علی برے ہی قسمت والے ہے صرف ایک ہی مکے پر پچاس ہزار ڈالر، تو آپ نے کہا کہ مجھے اس مکے کو تیار کرنے کیلئے 20 سال لگے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہوتا وہی ہے جو کچھ اللہ تعالیٰ کی ذات چاہتی ہے۔
لیکن خود فرمان باری تعالیٰ ہے کہ انسان کیلئے وہی کچھ ہے جس کیلئے وہ کوشش کرتا ہوتا ہے۔
تو اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جو کچھ ہم زندگی میں حاصل سے رہتے رہ جاتے ہوتے ہیں وہ کچھ قدرت کی طرف سے نہیں بلکہ اس میں ہمارے اپنے اعمالوں کی کمزوری ہی ہوتی ہے جس سے ہمیں وہ کچھ حاصل نہیں ہوتا ہے جو کچھ ہمیں زندگی سے چاہیے ہوتا ہے۔
دوسرا دنیا میں کوئی بھی انسان ایسا نہیں ہے جس کی زندگی مصائب نام کی چیز سے پاک ہو۔
جو جتنا بڑے مقام پر کھڑا ہے اسے اس قدر ہی بڑی مشکلات کا ہر وقت سامنا رہتا ہوتا ہے اور زندگی میں کچھ کرنے والوں کو ہمیشہ ہزاروں مسائل ہوتے ہیں۔ جبکہ صرف کچھ نہ کرنے والوں کو ہی اس سے تلافی ہے۔
جو لوگ سازگار حالات کا مطالبہ کرتے ہوتے ہیں اس کا دوسرے لفظوں میں مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم جو کچھ چاہتے ہیں وہ کچھ ہمیں بنا بنایا مل جائے جبکہ زندگی میں کچھ بڑا حاصل اس مزاج کے ساتھ کبھی بھی ممکن نہیں ہے۔
ایک مظبوط انسان حالات کا خود سے تخلیق کار ہوتا ہے اور ناکامی پر اس کی تمام ذمّہ داری خود سے قبول کرتا ہوتا ہے جبکہ کمزور قسم کے لوگ حالات کو ناہموار پاتے ہی حالات کا مقابلہ کرنے کی بجائے اپنی ناکامیوں کا سارا ملبہ قسمت یا پھر حالات پر ڈال کر اس کام کو انجام دینے کی بجائے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے چھوڑ دیتے ہوتے ہیں۔
جیسا کہ ایک طالب علم مالی حالات کے مشکل ہونے پر یہ کہتے ہوئے کہ میرے حالات سازگار نہیں، تعلیم کو درمیان میں ہی چھوڑ دیتا ہے
جبکہ دوسری طرف اسطرح کے حالت میں یا اس سے بھی زیادہ بری حالت میں لاکھوں اور بھی طالب علم تعلیم کو مکمل کرتے ہوتے ہیں، کیوں کہ وہ اس کی قیمت ادا کرنے کیلئے تیار ہوتے ہے وہ چاہیے جس قدر ہی بڑی کیوں نہ ہوں۔
دو ممالک کے درمیان کی جنگ کی وجہ یہ کہتے ہوئے کہ ان کے درمیان حالات ایسے چل رہے تھے کہ ان کے درمیان جنگ ناگزیر ہوگئی تھی اور ٹھیک ایسے ہی بہت سے لوگ اپنے ناکام تعلقات کی وجہ حالات پر ڈالتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ حالات کچھ ہمارے درمیان ایسے ہوگئے تھے کہ ہمارا ایک ساتھ چلنا ناممکن سا ہوگیا تھا۔ اس وجہ سے ہم نے علیحدہ ہونا ہی بہتر خیال کیا۔ ہر وہ عمل جو آپ کی زندگی میں ہوتا ہے چاہیے اچھا ہوں یا برا اس کے ہونے میں آپ کا ہی ہاتھ ہوتا ہے اور کچھ بھی آپ کی زندگی میں آپ کی رضا کے بغیر واقع نہیں ہوتا ہے۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ آپ انکاری ہوکر حالات کو اپنی ناکامیوں کا ذمے دار ٹھہرے لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ اپنی زندگی پر اس قدر قدرت رکھتے ہوتے ہے کہ آپ کی اجازت کے بغیر کبھی کچھ اگر آپ نہ چاہیے تو وہ ہو ہی نہیں سکتا ہے۔
وہ کشتی جس کو ملاح سمندر کی موجوں کے رحموں کرم پر چھوڑ دیتا ہے اس کو ہر صورت ڈوبنا ہی ڈوبنا ہوتا ہے ٹھیک ایسے ہی جو لوگ زندگی کو حالات کے سہارے پر چھوڑ دیتے ہوتے ہیں، ناکامی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ان کے مقدر میں لکھ دی جاتی ہے۔
ہوسکتا ہے کہ آج آپ کے حالات حق میں نہ ہو اور ایسا تب ہوتا ہے جب ہمارا عمل کمزور ہو۔
آپ اپنے عمل کو مظبوط کریں حالات خودبخود آپ کے حق میں ہو جائے گئے، جس طرح عمل آپ کے تابع ہے ٹھیک ایسے ہی حالات عمل کے تابع ہوتے ہیں اور جب جب عمل کمزور ہوتا ہے تب تب حالات کے سامنے انسان کے کمزور ہوتا جاتا ہے۔
عملی طور پر کمزور قسم کے لوگوں کی مثال پتنگ سی ہوتی ہیں اور ان کی ڈور حالات کے ہاتھ میں۔ انہیں حالات اپنے حساب سے چلاتے ہوتے ہیں جبکہ یہ ایک بہترین غلام کی طرح فرمابردار ہوکر حالات کے تابع رہ جاتے ہیں جبکہ عملی طور پر مظبوط قسم کے لوگوں کے ہاتھ حالات کی ڈور ہوتی ہے اور یہ لوگ حالات کو اپنے حساب سے تخلیق کرنے پر قدرت رکھتے ہوتے ہیں، حالات ان کے ماتحت ہوتے ہے ناکہ یہ حالات ماتحت۔
حالات پر آپ اپنے مظبوط عمل سے حاوی ہو جائے نہیں تو حالات آپ کو کھا جائے گئے۔
آپ میدان ہاڑ گئے کوئی بات نہیں، آپ ایمان ہاڑ گئے کہ اب مجھ سے کچھ نہیں ہوسکتا ہے تو تب آپ سب کچھ ہاڑ گئے۔
زندگی میں ان چاہا بہت کچھ ہوتا ہے جس پر عقل مند ہمیشہ اس سے سبق حاصل کرنے کے ساتھ ایسے بھول جاتا ہے جیسے کہ کبھی کچھ ہوا ہی نہیں ہے جبکہ نادان اس کے غم میں بیٹھ جاتا ہے اور پھر اس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہوتا ہے جو اسے آگے کو حاصل ہونا ہوتا ہے۔
اس کو بطور مثال ہم تھامس ایڈیسن کی زندگی ایک واقع کو دیکھتے ہے۔
جب تھامس کی عمر تقریباً 60 کے ہوچکی تھی تو اس کی لیبارٹری جس میں وہ تجربات کرتا تھا آگ لگ گئی۔
جو کئی ملین ڈالر کی لاگت سے بنی ہوئی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ اس کی زندگی بھر کا نچوڑ جو اس کی تحقیقاتی دستاویزات کی شکل میں موجود تھا، چند ہی لمحوں میں رکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوگیا، تو اس پر تھامس ایڈیسن نے نہ سر پکڑ کر بیٹھا اور نہ ہی چیخیں مارتے ہوئے آسمان کو سر پر اٹہاتے ہوئے میری قسمت خراب ہے جیسے جملے ادا کیے۔
بلکہ انہونے وقت ضائع کیے بغیر اس جملے کے ساتھ کوئی بات نہیں، یہ سب مجھے دوبارہ مل جائے گا۔ آج سب سے زیادہ ضروری ہے کہ مجھے آج سے آنے والا کل بہتر بنانا ہے، اور پھر دنیا نے دیکھا اس کا آنے والا کل گزرے ہوئے کل سے کروڑوں گنا بہتر سے بہترین تھا۔ اس واقع سے ہمارے لیے یہ سبق ہے کہ زندگی کا کوئی بھی بڑا سے بڑا حادثہ آپ کی کامیابی میں روکاوٹ نہیں بن سکتا، جب تک آپ گزرے ہوئے کل کی نسبت آنے والے کل کو بہتر نہیں بناتے ہیں۔
عمل سے عبارت زندگی ہی نتائج سے بھر پور ہوتی ہے جبکہ ہماری ناکامیوں کی سب سے بڑی وجہ صرف یہ ہے کہ ہم جو کچھ چاہتے ہیں صرف اس کی خواہش کرتے ہوتے ہیں ناکہ اس کی قیمت ادا کرتے ہوتے ہیں اور اس وجہ سے اس کے حاصل سے رہتے رہ جاتے ہیں۔