• کامیابی کا تعلق آپ کی ظاہری حالت سے اتنا ہی ہوتا ہے، جتنا کہ دوسرے لوگوں کا آپ کی ذات سے ہے،لیکن آپ کی اندرونی شخصیت سے اس کا تعلق ایسا ہوتا ہے جیسا کہ آپ کا اپنے آپ سے۔

انسانی شخصیت کی دو حالتیں ہیں ایک ظاہری اور دوسرا باطن۔ ظاہری حالت انسان کے باطن کا عکس ہے۔ جس طرح بادام کی اوپری سطح کی اہمیت صرف خول سی ہوتی ہے اور اس کی کوالٹی کا پتہ اندر کے کھلنے کے بعد ہوتا ہے، جبکہ باہر سے دیکھ کر کچھ کہنا احمقانہ بات ہوگئی، ٹھیک ایسے ہی ایک انسان کی حقیقت اس کی اندرونی ذات میں ہی ہوتی ہے ناکہ ظاہری صورت۔
ہمارا ظاہر بذات ایک خول سے زیادہ کچھ بھی نہیں، جبکہ ہر انسان کی حقیقی ذات اس کی سوچ میں موجود ہوتی ہے اور جس کا تعلق ہماری اندرونی ذات سے ہے۔ جو کچھ ایک انسان اپنے اندر سے ہوتا ہے وہی کچھ عکس کی صورت میں باہر کو جھلکتا نظر آتا ہے، جو ایک انسان کی حقیقت ہوتا ہے۔ جو لوگ اپنی اندرونی شخصیت پر پردہ ڈال کر اپنی ظاہری حالت کو کسی اور صورت میں پیش کرتے ہیں، جس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی واسطہ ہی نہیں ہوتا ہے، اس بناوٹ کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ یہ لوگ حقیقت جو ان کی اندرونی ذات ہوتی ہے اسے کم تر خیال کرتے ہوئے دوسروں پر خود کو اعلیٰ ظاہر کرنے کی غرض سے وہ کچھ دیکھاوا کرتے پھرتے ہیں، اور اپنے اعلیٰ ہونے کا دوسروں پر تصور قائم کرنے کی کوششوں میں پائے جاتے ہیں۔ لیکن یہ لوگ اپنی ناسمجھی کی وجہ سے اس حقیقت سے کوسوں دور ہوتے ہیں کہ اگر آپ اچھائی کے معراج تک ہی کیوں نہ پہنچ جائے لیکن پھر بھی معاشرے میں بسنے والے دوسرے لوگوں کے ہاں ان کی ذات کے سامنے حقیر ہی ہیں مگر آپ برائی میں کچھ نہ ہوکر بھی ان کے ہاں بہت کچھ ہیں۔

دنیا کا ہر انسان ہر وہ چیز اپنی ذات کے ساتھ منسلک دیکھنا چاہتا ہے جو اس کو دوسروں پر اعلیٰ و برتر ثابت کریں، چاہے اس میں اس کی اہلیت صفر ہی کیوں نہ ہو اور ٹھیک ایسے ہی ہر اس چیز کو خود سے دور رکھنا چاہتا ہے جو اس کی شخصیت کو کم تر دیکھائے، چاہے سر سے پاؤں تک ان خامیوں میں لت پت ہی کیوں نہ ہو۔
ایک سمجھدار انسان اپنی حقیقت پر کام کرتا ہیں۔ جو اس کو زیادہ سے زیادہ نوازتی ہے اور وہ حقیقت انسان کی اندرونی ذات ہے، جبکہ ایک بے وقوف انسان ہمیشہ حقیقت کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے خسارے میں رہ جاتا ہے۔
آپ ایک خوبصورت ذہن کے ساتھ جو کچھ حاصل کر سکتے ہے وہ اپنے جسم کے پرکشش ہونے سے اس کا ادنیٰ سا حصہ بھی نہیں کرسکتے ہے مگر پھر بھی دیکھا جاتا ہے کہ ہر دوسرا شخص اندر سے کچھ ہوں نہ ہو مگر ظاہری طور پر بہت کچھ ہونے کی کوشش میں پایا جاتا ہے۔
آپ ظاہری طور پر اعلیٰ ہونے پر پرکشش تو بن سکتے ہے مگر پر اثر ہرگز نہیں، دلکش تو بن سکتے ہے لیکن دلچسپ نہیں، خوش شکل تو ہو سکتے ہے مگر خوش حال نہیں، دوسروں کو خوش تو کر سکتے ہے مگر خود کو نہیں۔ لوگوں کی خوشیوں میں کمی کی ایک بڑی وجہ یہی ہوتی ہے کہ یہ لوگ وہ نہیں کرتے جس سے ان کی خوشیاں جڑی ہوئی ہو بلکہ وہ کچھ کرتے پھرتے ہیں جس سے ان کو دوسرے لوگوں کی خوشنودی حاصل رہے۔ یہ خود کی ذات کیلئے بننے سنورنے کی بجائے دوسروں کی خوشنودی کے حصول کیلئے بنتے سنورتے ہیں۔

اسطرح کے عمل کے ساتھ آپ خوش لباس تو ہو سکتے ہے مگر خوش حال نہیں، دوسروں کا دل تو بھلا سکتے ہے مگر اپنے دل کو نہیں، ہم جتنا دوسروں کی پرواہ کرتے ہوئے ان کی خوشنودی کے حصول کیلئے بناوٹ اختیار کرتے ہے اتنا ہی ہم خود کی ذات سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ایک انسان کی اپنی اندرونی ذات سے گہری وابستگی ہی اس کو اپنے آپ کے ساتھ مظبوطی سے جوڑے رکھتی ہے اور ہر میدان میں اعلیٰ نتائج پیدا کرنے کیلئے اندرونی ذات کا اعلیٰ ہونا ضروری ہے کیونکہ کامیابی اندرونی کیفیت کا نام ہے۔
ایک انسان تب تک کمزور ہے جب تک وہ خود کی اندرونی ذات سے انجان ہے۔
مگر پھر بھی ہر دوسرا شخص دوسروں سے ہر چیز میں صرف ظاہری طور پر اعلیٰ نظر آنا چاہتا ہے ناکہ خود کیلئے اندرونی طور پر بننے کی کوشش کرتا ہے اور اس کے حصول کیلئے کسی بھی نیک اور بد میں تمیز نہیں رکھتا ہوتا ہے ہے۔ اس عمل کو کر گزرنے کے پیچھے ہر وہ طریقہ چاہیے وہ غلط ہو یا پھر درست آزماتا ہے جو اس کو وقتی طور پر حاصل ہوتا ہے۔ یہ دوسروں سے اعلیٰ ہونے کی خواہش اندرونی طور پر تو اچھی ہوتی ہے مگر ظاہری طور پر اعلیٰ ہونے کی خواہش انسان کیلئے تباہ کن ہے۔
ظاہری حالت کا خوبصورت ہونا ایک خوبصورت چیز ہے اور اس چیز کا کہیں نہ کہیں ہماری زندگیوں میں ایک اپنا اہم کردار ہوتا ہے مگر زندگی میں پیچیدگیاں تب وجود میں آتی ہیں جب لوگ وقتی طور پر ظاہری فوائد حاصل کرنے کیلئے اندرونی حالت کو نظر انداز کر دیتے ہے اور جس کے نتائج ان کی شخصیت کیلئے ہمیشہ زوال کی صورت میں وجود میں آتے ہے۔
لوگ اپنے گھروں، گاڑیوں، لباس اور رہن سہن غرض ہر اس چیز کا استعمال کرتے ہیں اور رکھتے ہیں جو انہیں دوسروں سے اعلیٰ و برتر ظاہر کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
کئی لوگ ظاہری طور پر بڑے بننے کی خواہش کی تکمیل کیلئے اکثر اپنی حثیت سے زیادہ خرچ کرتے ہے اور خود کو اعلیٰ ظاہر کرنے کیلئے بنکوں سے قرضہ جات لینے سے بھی گریز نہیں کرتے اور جس کا نتیجہ پوری زندگی سود چکاتے چکاتے گزر جاتی ہے۔
کئی لوگ شعور کیلئے نہیں بلکہ پڑھا لکھا کہلوانے کی غرض سے تعلیم کی ڈگریاں کرتے ہیں اور یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو بہت کچھ پڑھ کر بھی جاہلوں سا مزاج رکھتے ہیں۔ صاف ظاہر ہے جب غرض حاصل کرنے کی بجائے کہلوانے کی ہوتی ہے تو پھر نتائج اس سے ہرگز مختلف نہیں ہو گئے۔ کئی لوگ ظاہری صورت کو پرکشش بنانے کیلئے گھنٹوں گھنٹوں آئینے کے سامنے بیٹھے رہتے ہیں اور کسی چیز کی کمی جو بظاہر ان کی نظر میں ہوتی ہے اس پر ہلکان ہوتے ہوئے طرح طرح کے ٹوٹکے آزماتے جاتے ہیں اور اپنی توانائی اور وقت جیسی قیمتی چیز کو بے دردی سے ضائع کرتے رہتے ہیں اور پھر دیکھا جاتا ہے کہ وقت بھی ایسے لوگوں کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ضائع کر دیتا ہے۔
کسی دوسرے کی مدد کرتے ہی سوشل میڈیا پر تصویریں ڈالنا حالانکہ نیکی کی غرض سے کی گئی مدد کبھی بھی دوسروں پر ظاہر نہیں کی جاتی ہے کیونکہ یہ ایک اخلاقی اصول ہے۔ یہ اس قسم کے حربے کرنے کے پیچھے خود کو برتر اور اعلیٰ کہلوانے کی سوچ پائی جاتی ہے۔ دوسروں کی نگاہوں کا مرکز ہونے کی خواہش انسانوں کو ہمیشہ نیم پاگل بنا دیتی ہے۔
اکثریت خواتین ایک دوسرے سے ظاہری خوبصورتی کے معاملے میں سبقت لے جانے میں کسی قسم کی کوئی کسر نہیں چھوڑتی ہیں۔
بیوی کی یہ کوشش کے میں اپنے شوہر کی نظروں کا مرکز بنی رہوں جو ایک خوبصورت سوچ ہے مگر وہی عورت ہر دوسرے مرد کی نگاہوں کا مرکز بننے کی خواہش رکھنے لگے تو یہ ایک ناجائز خواہش ہے۔ رشتوں میں بھی لوگ اسی پر عمل پیرا ہوتے ہیں اعلیٰ ؤ کمتر مگر رشتے ہمیشہ متوازن رہنے سے چلتے ہیں۔ کوئی بھی تعلق اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتا ہے جب اس کے درمیان اعلیٰ و ادنیٰ کی دیوار کھڑی کر دی جائے۔
لوگ اکثر سوال کرتے ہیں اتنا پیسہ کہ اس کی سات نسلوں کو کافی ہے، مگر پھر بھی یہ شخص ابھی تک پاگلوں کی طرح پیسے کے پیچھے لگا ہوا ہے، ٹھیک اسی طرح شہرت اور طاقت کے زیادہ سے زیادہ ہونے کے پیچھے لوگ کسی بھی غیر اخلاقی حد تک کیوں چلے جاتے ہیں ؟ اصل بھوک پیسے اور طاقت کی نہیں بلکہ دوسرے سب لوگوں سے اعلیٰ اور اہم ہونے کی یہ بھوک ہوتی ہے جو سب کچھ حاصل ہونے کے باوجود بھی انسان کو زیادہ سے زیادہ پر اکساتی رہتی ہے اور ہمیشہ نیم پاگلوں کی طرح چیزوں کے پیچھے بھاگنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
لوگ احساس برتری کی تسکین پانے کیلئے یہاں تک کہ اپنی جان پر بھی کھیل جانے سے گریز نہیں کرتے ہیں۔
ایک بڑی تعداد میں لوگوں کی خودکشیوں کے پیچھے کی وجہ وہ اپنوں پر یہ احساس چھوڑنا چاہتے ہوتے ہیں کہ ہم اس خطرناک حد تک جاسکتے ہیں اور خود کی ذات کی طرف توجہ دلانے اور خود کی اہمیت دلانے کیلئے خود کو نقصان پہنچانے جیسے اقدامات کرتے ہیں اور جس سے زندگی جیسی خوبصورت نعت سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
یہ ظاہری طور پر اعلیٰ ہونے کی سوچ ایک فلسفہ کے اردگرد گھومتے ہوئی پائی جاتی ہے اور وہ یہ کہ جو دیکھتا ہے وہ بکتا ہے۔ یہ دنیا کا بکواس ترین فلسفہ ہے۔ صرف وقتی طور پر دوسروں کو دھوکا دینے کیلئے تو کام آسکتا ہے مگر یہ ہمیشہ کیلئے کبھی بھی یہ کام نہیں کرتا۔
جو دیکھتا ہے وہ بکتا ہے یہ ایک ایسا احمقانہ فلسفہ ہے جس کا ہمیشہ رہنے والی کامیابی کے حاصل سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں کیونکہ یہ صرف گھڑی دو گھڑی کیلئے ہی کام کرتا ہے ناکہ ہمیشہ کیلئے۔
لوگ وقتی طور پر ظاہری حالت کے عمدہ ہونے سے اکثر دھوکہ ضرور کہا جاتے ہیں لیکن وہ ہمیشہ کیلئے اس دھوکے میں نہیں رہتے اور بہت جلد حقیقت کے جانتے ہی سنبھل جاتے ہیں کیوں کہ کسی بھی انسان یا چیز کا اندر چھپائے نہیں چھپتا اور ایک وقت کے بعد خود بخود عیاں ہو جاتا ہے۔
اس کے ساتھ آپ دوسروں کو صرف وقتی طور پر تو متاثر کرتے ہوئے کچھ وقت کیلئے تو استعمال کر سکتے ہیں مگر ہمیشہ کیلئے نہیں۔
آپ کی ظاہری ذات کا اعلیٰ ہونا صرف اس وقت تک کام کرتا ہیں جب تک دوسروں کا آپ کے ساتھ قریب سے واسطہ نہیں پڑتا ہیں اور جیسے ہی لوگوں کے ساتھ آپ کا واسطہ پڑتا ہے تو سب کچھ عیاں ہو جاتا ہے۔
یہ اور بات ہے کہ یہ آپ کی مہارت اور دوسرا سامنے والے کی عقل پر انحصار کرتا ہے کہ آپ کب تک دھوکے میں رکھ سکتے ہیں یا پھر وہ کب تک دھوکے میں رہتا ہے لیکن حقیقت کے کھلنے پر اور جو ایک وقت کے بعد ضرور عیاں ہو جاتی ہے تو اس سے آپ کے کردار پر ایسے داغ لگ جاتے ہیں جو آپ کے زندگی بھر دھونے سے بھی ختم نہیں ہوتے۔
ظاہری طور پر خوبصورتی اس وجہ سے وقتی طور پر اثر انداز ہو جاتی ہے کیوں کہ یہ سیدھا انسان کے دل پر لگتی ہے اور جس کی وجہ سے انسان دماغ سے کام لینے کی بجائے دل کو ترجیح دیتا ہے لیکن ایک وقت کے بعد کہیں حد تک دل کے بھر جانے اور حقیقت کا انکشاف ہونے پر اتنا ہی تیزی سے دل سے اتر بھی جاتی ہے کیونکہ صرف خوبصورتی کی وجہ سے قائم تعلق کی عمر ہمیشہ بہت ہی چھوٹی ہوتی ہے۔
جبکہ اندرونی ذات کا معاملہ اس کے بالکل ہی الٹ ہوتا ہے اور یہ چیز بہت دیر سے اثر انداز ہوتی ہے لیکن ایک بار اثر کرنے کے بعد اس کا اثر پھر کبھی زائل نہیں ہوتا ہے کیونکہ باطنی خوبصورتی سیدھا انسان کے روح پر اثر انداز ہوتی ہے۔
جو لوگ دوسروں کو متاثر کرنے کیلئے اور ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دوسروں کی نظروں کا مرکز بنے رہنے کی کوشش میں جٹے رہتے ہیں تو ان کا پہلا نقصان یہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ اپنے مقصد زندگی پر توجہ کی بجائے ظاہری حالتوں کو بہتر کرنے میں اپنی توانائی، پیسہ اور وقت خرچ کرنے میں لگے رہتے ہیں اور دوسروں کو نیچا دکھانے کیلئے کسی قسم کی بے عقلی سے بھی گریز نہیں کر پاتے ہیں کیونکہ دوسروں کو نیچا دکھانے کی خواہش ہمیشہ انسان سے ہر قسم کی سمجھ بوجھ چھین لیتی ہے۔

جب معاشرہ ایسے لوگوں کو ان کی توقعات کے عین مطابق اہمیت نہیں دیتا تو اس سے نفسیاتی پیچیدگیاں پیدا ہونے کا سب سے زیادہ خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ اسطرح سے بڑھنے والے افراد ایک وقت گزرنے کے بعد اپنے آپ کے بھی نہیں رہتے ہیں کیونکہ ان کا مقصد صرف دوسروں کی توجہ کا حاصل ہوتا ہیں اور یہ ہمیشہ اسی کے ہی غلام ہوتے ہیں ناکہ ذہنی طور پر آزاد۔ یہ لوگ ظاہری طور پر تو بڑے آئیڈیل قسم کے لگتے ہیں مگر اندر سے اتنا ہی کھوکھلے اور بے سکون سے ہوتے ہیں۔ ان پر ہمیشہ خوف کی تلوار لٹکی رہتی ہے۔ یہ ایسے بد قسمت انسان ہوتے ہیں جن کی خوشیاں ہمیشہ دوسروں کے ہاتھوں میں ہی ہوتی ہیں ناکہ ان کے اپنے۔
جو لوگ اپنی اندرونی فتح کو بیرونی فتح پر ترجیح دیتے ہیں وہ ہمیشہ نقصان میں ہی رہتے ہیں۔
انسان کا اپنے آپ پر سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ وہ دوسروں کی خوشنودی کے حصول کیلئے اپنی خود کی خوشیوں کو پیٹھ پیچھے ڈال دیں اور زیادہ تر لوگ یہی کرتے ہیں۔
یہ ایک غلط تصور ہے کہ انسان کی اہمیت اس کی ظاہری حالت سے ہوتی ہے۔ جذبہ، عقل، ایمان، مثبت سوچ، امید، تحریک، اعتماد، محبت، بول چال کی صلاحیتیں اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں، ان سب کی کامیابی کے حصول میں اتنا اہمیت ہے کہ کوئی بھی شخص ان میں سے کسی ایک کا بھی انکاری نہیں ہوسکتا ہے اور یہ سب خوبیاں انسان کی اندرونی ذات میں ہی ملتی ہیں۔ جب آپ ظاہری حالت کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں اور اسی پر ہی کام کرتے ہیں اور اپنے اندر کو نظر انداز کرتے ہیں تو دوسرے معنوں میں آپ ان سب خوبیوں پر کام نہ کرنے کی وجہ سے وہ کچھ حاصل نہیں کر سکتے ہیں جس کی آپ طلب رکھتے ہیں۔
ان سب کی اہمیت کامیابی کے ہاں ایسی ہیں جیسے آپ کے جسم میں اعضاء کی اور یہ سب کامیابی کے اعضاء ہیں، یہ سب اس وقت عمدگی سے کام کریں گئے جب آپ اپنے اندر کو عمدہ بنائے گئے ناکہ ظاہر کو۔
ظاہری طور پر ایسی کوئی ایک چیز بھی نہیں جس کے اعلیٰ نہ ہونے پر آپ کامیابی کے حاصل سے رہتے رہ جائے۔ ظاہری طور پر اعلیٰ ہونے سے اگر آپ لوگوں کو متاثر کرتے ہیں تو صرف چند ایک لوگ بمشکل مگر اندر کے عمدہ ہونے سے ہزاروں گناہ زیادہ متاثر کن شخصیت کی صلاحیتیں آپ میں موجود ہیں۔
گاندھی جی پرکشش نہیں پر اثر شخصیت تھے، جب وہ دھوتی پہن کر چلتے تو ایک زمانہ ان کے پیچھے چلتا تھا اور انہیں دیکھنا اپنے لئے سعادت سمجھتا تھا۔ نپولین بوناپارٹ پست قند کے مالک تھے، ابرہام لنکن کا چہرہ کوئی زیادہ عمدہ نہیں تھا اور اس کے چلنے کے انداز پر پوری زندگی اس کی اپنی بیوی نکتہ چینی کرتی رہی۔

سقراط جسمانی لحاظ سے بھدا، بے ڈول سا انسان تھا، جس کی گردن کاندھوں میں دھنسی ہوئی تھی، داڑھی بے ترتیب اور عجیب و غریب قسم کی تھی، ناک چپٹی ہوئی تھی، پیشانی بہت ہی چھوٹی سی تھی اور اس وجہ سے ایتھنز کے لوگ اسے مینڈک کہہ کر پکارا کرتے تھے اور پورے ایتھنز میں سقراط جیسا عظیم انسان اسی مینڈک نام سے ہی مشہور تھا۔

عبدلستار ایدھی صاحب دوسرے ہزاروں مولویوں کی طرح ہی کی صورت رکھنے والے عام سی شکل کے مالک تھے۔

ٹالسٹائی ایک معمولی صورت کا مالک تھا۔ وہ خود اپنے بارے میں لکھتے ہیں کہ مجھے معلوم ہے کہ میں کسی حالت قبولِ صورت نہیں۔ ٹالسٹائی کا چوڑا ناک اور عجیب و غریب موٹے موٹے ہونٹ تھے، اور بہت ہی چھوٹی چھوٹی زرد آنکھیں جو اور ہی ظاہری صورت کو بھدا بنا دیتی تھی۔
یہ سب لوگ ایسے ہیں جو اپنے اپنے شعبوں کے امام ہیں اور ان کی شخصیت کے اثرات صدیوں سے دنیا پر قائم ہیں اور
ان سب میں کچھ اگر خاص تھا تو وہ ان کی اندرونی شخصیت بہت پراثر اور بھر پور تھی، جو ان کو اپنوں جیسے کروڑوں
لوگوں سے ممتاز و منفرد بناتی تھی۔ ان سب ہستیوں نے خود کو جانا جو اپنے اندر کو جان جاتے ہیں وہ پھر کبھی بھی عام نہیں رہتے ہیں۔
اکثریت خواتین میں یہ سوچ حماقت کی حد تک پائی جاتی ہے کہ ظاہری خوبصورتی ہی سب کچھ ہوتی ہے۔ مگر حقیقت تو یہ ہے کہ ظاہری خوبصورتی کی عمر ہمیشہ بہت ہی چھوٹی ہوتی ہے۔ تاریخ کی طرف نظریں دوڑائیں تو قلوپطرہ کی ذہانت ہی تھی جس کی وجہ سے اسے ہر دور میں ایک کامیاب عورت تسلیم کیا جاتا رہا ہے۔

جب سیزر سے قلوپطرہ کا بیٹا ہوا تو سیزر پہلے سے ہی شادی شدہ تھا اور اس کو اس بات کا ڈر تھا کہ کہیں اس کی شہرت کو نقصان نہ پہنچے تو اس وجہ سے سیزر قلوپطرہ سے شادی بھی نہیں کر سکتا تھا اور جبکہ ساتھ چھوڑنا بھی نہیں چاہتا تھا۔ تو اس پر قلوپطرہ نے فوراً ایک چال چلی وہ یہ کہ پادریوں کو حکم دیا کہ سیزر کو انسان سے دیوتا قرار دے دیا جائے۔ جو زمین پر قلوپطرہ کو بیٹے سے نوازنے کے لیے آیا ہے اور اسطرح ناصرف سیزر بلکہ قلوپطرہ بھی لوگوں کی نظروں میں دیوی کا روپ دھار لیا تھا۔ سیزر کی موت کے بعد اس کا دوسرا عاشقانہ مارک انتھونی کے ساتھ رہا جو نہایت بداخلاق اور غیر مہذب شخص تھا لیکن اس کے باوجود بھی قلوپطرہ نے اسے ویسے ڈھال دیا جیسا کہ وہ اس کو دیکھنا چاہتی تھی۔

سب سے بڑی خوبی جو قلوپطرہ میں تھی وہ یہ کہ مرد کی انا کو تسکین دینے کے ساتھ اس کے اعلیٰ ہونے کی بھوک کو مٹانے کے ہنر میں بڑی مہارت رکھتی تھی اور جو اسے اپنے جیسی کروڑوں خواتین میں سے جدا کر دیتی تھی۔ جو صرف خوبصورتی سے کبھی بھی ممکن نہیں ہے۔
انتھونی کی ایک عادت تھی وہ اکثر رات کا کھانے کرنے سے پہلے مچھلی کا دریائے نیل سے شکار کرتا۔ قلوپطرہ کو اس کی یہ دوری ذرا بھر بھی برداشت نہ ہوتی تھی اور وہ فوراً انتھونی کے جاتے ہی پیچھے کو غوطے غوروں کو بھیج کر مچھلیوں کو کوڈی میں لگوا دیتی تھی اور جب انتھونی واپس آتا تو اس کو خوش کرنے کیلئے اس کا استقبال ایسے کرتی جیسے وہ کوئی جنگ جیت کر آیا ہوں۔ اسے ہمیشہ اسطرح اعلیٰ ہونے کی خوب غذا کہلاتی اور اس کے دل ودماغ پر ہمیشہ حاوی رہتی۔ یقیناً قلوپطرہ خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھی اور اس کے عروج کو آج تک کوئی دوسری عورت نہیں پہنچ پائی حالانکہ وہ دنیا میں واحد عورت تو نہیں تھی جو اتنا زیادہ خوبصورت تھی؟
اس سے ہزاروں گناہ زیادہ خوبصورت اور دلکش ہونے کے باوجود ایک مرد کے دل پر حکمرانی کرنے میں ناکام رہ جاتی ہیں۔ تاریخ کی دوسری ایک اہم عورت جوزفین جس میں وہ ہر خامی تھی جو پہلی اور آخری حد تک ناپسندیدگی کی وجہ بن سکتی ہے مگر وہ جوزفین تھی۔ وہ شکل میں کچھ خاص خوبصورت اور دلکش نہیں تھی جو عام سا چہرہ رکھتی تھی، دانت اس کے خراب تھے۔ بیوہ ہونے کے ساتھ ساتھ دو پچوں کی ماں تھی۔ جب نپولین بوناپارٹ سے ملی تو تین سال عمر میں بھی نپولین سے بڑی تھی مگر ان سب خامیوں کے باوجود بھی وہ دنیا کے ایک عظیم شخص کے دل ودماغ پر ایسی حکمرانی کی کہ نپولین بوناپارٹ کا آخری لفظ جوزفین تھا حالانکہ جوزفین ایک سوچی سمجھی چال کے تحت نپولین کو پھانسا تھا،
جب جوزفین کو اس کی سہیلیوں نے بتایا کہ نپولین بہت جلد مشہور ہوجائے گا تو وہ فوراً ایک دو ملاقاتوں کا خود سے انتظام کیا اور خود کا نپولین پر ایسا اثر چھوڑا جو نپولین کو کہنا پڑا جوزفین! میں اس زمین پر صرف تم پر ہی بھروسہ کر سکتا ہوں۔ یہ جادو نپولین بوناپارٹ جیسے شخص پر اس کی ذہانت کا ثبوت تھا۔ نپولین کیوں نہ گن گاتا ایسی عورت کے جو اسے ہمیشہ اعلیٰ اور دنیا کا سب سے بڑا جنگجوں ہونے کا یقین دلایا کرتی تھی۔ تاریخ دانوں کے مطابق نپولین کی تمام فتوحات کے پیچھے ایک حد تک جوزفین کا ہاتھ تھا اور اگر وہ صرف خوبصورت ہوتی تو کبھی بھی نپولین کے دل ودماغ پر اسطرح کی حکمرانی نہ کر پاتی اور یقیناً کبھی بھی نہیں کر پاتی۔
اکثر خواتین تعلق گزرنے کے ایک وقت کے بعد کچھ جملے کہتی ہوئی پائی جاتی ہے وہ یہ کہ تم بدل گئے ہیں، اب تم وہ پہلے والے شخص نہیں رہے ہے، میں نے یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ آپ بھی دوسروں کی طرح نکلے گئے، مجھے ایسا کیوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ وہ پہلے والے شخص نہیں رہے ؟
آپ خاص اس وقت تک ہوتے ہے جب تک آپ دوسروں کو صرف تصوراتی شکل میں دستیاب ہوں، جب آپ حقیقت میں کسی شخص کو مل جاتے ہے تو پھر ایک دم خاص سے عام بن جاتے ہے اور آپ کی پہلے والی کشش زائل ہو جاتی ہے۔ ٹھیک ایسے ہی ظاہری خوبصورتی کا اثر بھی ایک وقت کے بعد زائل ہو جاتا ہے وہ چاہے کتنا ہی حسن کیوں نہ ہو لیکن دماغ کا استعمال کبھی بھی آپ کے اثر کو دوسروں کی نظروں میں زائل نہیں ہونے دیتا ہے۔
جو آپ لوگوں پر ظاہر کرتے ہیں
اور اس کی قابلیت  آپ میں موجود بھی ہے پھر بھی دوسروں پر ظاہر کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا ہے کہ میں تم لوگوں سے اعلیٰ ہوں۔
لوگ کبھی بھی آپ کی ذات کو مکمل نہیں دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ آپ کا کسی کام میں مکمل دیکھنا دوسروں کی انا کو ٹھیس پہنچانے جیسا ہے جبکہ آپ کا مفاد دوسروں کی انا کو ٹھیس پہنچانے میں نہیں اولٹا ان کی انا کو تسکین دینے سے جڑا ہوا ہے اور جو لوگ احمق پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود کو مکمل ظاہر کرنے کی کوشش میں جٹے رہتے ہیں وہ ہمیشہ دوسروں کے حسد و کینہ کا شکار رہتے ہیں۔

لوگ سب کچھ برداشت کر سکتے ہیں مگر یہ ہرگز نہیں کہ آپ ان سے اعلیٰ بنے۔ لوگوں کو اکثر آپ کی ذات میں کیڑے اچھے لگتے ہیں تو ان کی خوشنودی کیلئے خود میں کچھ نہ کچھ کیڑے رہنے دے اور اسی میں ہی آپ کی بھلائی ہے۔

جب آپ خود کو دوسروں کے سامنے مکمل پیش کرتے ہیں تو لوگ آپ جیسے نہ بن پانے کی وجہ سے پہلے پہل آپ کو ایک غلط طریقے سے راستے سے ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ نہیں تو کچھ اسطرح کے الزامات آپ کی ذات پر لگائے جائے گئے جو آپ کی شخصیت کو مسمار کرنے کی طاقت رکھتے ہوتے ہیں اور جب آپ کچھ خامیوں کے ساتھ ان کے سامنے اپنا وجود رکھتے ہیں تو پھر دوسرے آپ جیسا بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو بظاھر لوگوں کو لگتا ہے کہ ایسا بنا جا سکتا ہے اور ہمیشہ حاسد لوگ آپ کے اس عمل سے دھوکہ میں رہے گئے۔
لوگوں سے آگے چلنے سے سب سے بڑا خطرہ یہ ہوتا ہے کہ حاسد لوگ بڑی ہی آسانی کے ساتھ پیچھے سے نقصان پہنچا سکتے ہیں اور آپ بے خبری کی وجہ سے ماڑے جائے گئے،
لوگوں سے دو قدم ظاہری طور پیچھے رہے۔ اس سے ان کی زیادہ واضح انداز سے حقیقت کو سمجھ پائے گئے کیونکہ سامنے سے لوگ بناوٹی چہروں کے ساتھ دھوکہ دے جاتے ہیں۔ جس سے گمراہ ہونے کا خطرہ ہوتا ہے جبکہ پیچھے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی اصلیت کو زیادہ سے زیادہ قریب سے سمجھا جاسکتا ہے اور اسطرح دھوکہ سے انسان بچ جاتا ہے۔
دوسروں سے زیادہ عقلمند ضرور بنے لیکن ظاہری طور پر نہیں بلکہ عقلی طور پر، جب آپ ظاہری طور پر عقل مند بننے کی کوشش کرتے ہیں تو اس سے بڑی حماقت ہو ہی نہیں سکتی ہے۔
گیلیلیو اپنی زندگی کا بڑا حصّہ ایک بڑا نام ہونے کے باوجود بھی مفلسی میں گزارتے رہے، اسی غربت کی وجہ سے اسے پیسا یونیورسٹی کی تعلیم کو درمیان میں چھوڑنا پڑا۔

لیکن ان کے تب دن پھر گئے جب انہونے چار چاند دریافت کیے جو سیارہ مشتری کے گرد گردش کرتے ہوئے پائے گئے۔ یہ دریافت گلیلیو کو صرف نام کے علاوہ کچھ بھی نہ دیتی اس کی دوسری دریافتوں کی طرح مگر گلیلیو نے اس دریافت کو اس وقت کے نئے منتخب شدہ حکمران کاسمو دوم کی تخت نشینی سے منسوب کردیا اور کہا کہ جس دن بادشاہ سلامت تخت نشین ہوئے، ٹھیک اسی دن ہی یہ چار چاند طلوع ہوئے اور اس طرح اپنی دریافت کو بادشاہ کیلئے خدائی سنت قرار دیتے ہوئے اس کے منصب پر خدائی مہر لگا دی۔

جس پر کاسمو دوم اتنا خوش ہوا کہ اس نے گلیلیو کو اپنے شاہی دربار میں فوراً فلاسفر مقرر کردیا۔ یہ خوبصورت نتائج گلیلیو کو بادشاہ کے اعلیٰ ہونے کی خدائی سند پیش کرنے پر حاصل ہوئے۔
ہر انسان احساسِ برتری کا بھوکا ہوتا ہے اگر آپ یہ غذا دوسروں کو کہلاتے ہیں تو آپ اپنی مرضی کا پھل حاصل کرنے میں بڑی ہی آسانی سے کامیاب ہو جاتے ہیں۔
جب آپ دوسروں پر سبقت لے جانے کی غرض سے دوسروں کو نیچا دکھاتے ہوئے منزل کی جانب بڑھتے جاتے ہیں تو آپ چلتے پھرتے دشمنی کے بیج بونے کے عمل پر پیرا ہوتے ہیں اور جب آپ دوسروں کو اعلیٰ محسوس کرواتے ہوئے خود پر سبقت لے جانے دیتے ہیں تو آپ اپنی اس ایک چھوٹی سی خوبی کی وجہ سے اپنے اردگرد دوستوں کی کثیر تعداد کھڑی پاؤں گئے۔
حکمت یہ نہیں کہ آپ اعلیٰ کہلائے جائے بلکہ حکمت یہ ہے کہ آپ اعلیٰ نتائج کے حقدار قرار پائے اور یہ اس صورت میں ناممکن شکل اختیار کر جاتا ہیں جب آپ دوسروں کے سامنے خود کو ایک مظبوط مد مقابل کے طور پر ظاہر کرتے ہیں۔
جب آپ خود کو کمزور ظاہری طور پر ظاہر کرتے ہیں تو اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ راستے میں کھڑی ہر انسانی دیوار آپ کا راستہ روکنے کی بجائے غیر اہم خیال کرتے ہوئے سفر میں روڑے نہیں اٹکائے گئی، جس سے منزل ناممکن سے ممکن کی صورت اختیار کر لے گئی اور لوگوں کو اسی حکمت کی کمی کی وجہ سے ان کو منزل میں دوگنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہ ان کی خود سے پیدا کردہ مشکلات ہوتی ہیں۔
آپ کو اگر بہترین نتائج چاہیے تو پھر تعریف اور اعلیٰ ہونے کا منصب دوسروں کیلئے چھوڑ دیں اور جس چیز کی بھوک دوسروں میں ہو اگر آپ بھی اسی بھوک کے ساتھ جائے گئے تو خالی ہاتھ رہ جائے گئے لیکن اگر آپ دوسروں کی بھوک کو مٹانے کے ہنر پر مہارت رکھتے ہیں تو آپ اپنی منزل کو دوگنی رفتار سے حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گئے۔
لوگوں کو کبھی بھی دولت ؤ شہرت سے اپنا گرویدہ نہیں بنایا جاسکتا ہے بلکہ یہ عمل تو دوسروں میں حسد کو آپ کے خلاف ہوا دیتا ہے مگر ان کی خواہشات کی تسکین کے ساتھ ضرور اپنا بنایا جاسکتا ہے اور جو بہت ہی آسان ہے۔
دوسروں میں پائی جانے والی صلاحیتوں کی تعریف کے ساتھ اس کے سیکھنے اور جاننے میں دلچسپی دکھائے۔ ایک تو آپ کو بہت کچھ نیا سیکھنے کو ملے گا اور دوسرا اس شخص کی قربت ملے گئی اور کبھی بھی یہ احساس نہ دلانا کہ یہ کام جو آپ کرتے ہیں بہت ہی آسان ہے۔ بلکہ مشکل سے ناممکن کی شکل دینا ہی بہتر ہوگا، جیسا کہ وہی شخص ہی بہتر طریقے سے انجام دے سکتا ہے۔ کچھ اس طرح کی احساسِ برتری کا احساس دلانے کے ساتھ یہ احساس دلانے میں کامیاب ہو جائے گئے کہ آپ اس کی صلاحیتوں کے قدر دان ہیں۔
ہر شخص نے کچھ نہ کچھ ایسا کام ضرور کیا ہوا ہوتا ہے جس کی تعریف کر کے اس کا دل موہ لیا جاسکتا ہے۔ آپ دوسروں کی پسند کے موضوع پر بات کر کے اپنا گرویدہ بنانے میں کبھی ناکام نہیں ہوگئے کیونکہ لوگ اس پر بات کرنے سے دلی خوشی محسوس کرتے ہیں۔
کسی کی خوبیوں کو سراہتے ہوئے بڑی ہی آسانی سے اس کے دل میں گھر کر سکتے ہیں اور یہ سب بہت ہی آسان ہیں مگر کبھی بھی بناوٹ سے کام نہیں لینا چاہیے۔ چاہیے آپ جتنا بھی مہارت سے کام لیتے ہیں۔ لوگ لمحوں میں جان جاتے ہیں اور دوسرا بناوٹی چیز کبھی بھی اثر انداز نہیں ہوتی ہے۔
آپ کے چہرے کے تاثرات آپ کے اندرونی شخصیت کا عکس ہوتے ہیں، آنکھیں روح کی کھڑکیاں ہوتی ہیں، لہجہ آپ کے دل کی آواز ہوتا ہے اور آپ کا کردار آپ کے خیالات کا ثبوت ہوتا ہے، ہر عقل مند شخص ہمیشہ ان چیزوں کی سنتا ہے، جو چیخ چیخ کر سچ بول رہی ہوتی ہیں۔
تم  کسی پر خود کی برتری ثابت کرنے کے ساتھ اسے نیچا دکھاتے ہوئے اپنی مرضی کی خدمات ہرگز نہیں حاصل کر سکتے ہیں وہ چاہے آپ کے ماتحت ہی کیو نہ ہو، لیکن آپ دوسروں کو برتر ہونے کی غذا کہلاتے ہوئے اپنی مرضی کے نتائج ضرور حاصل کر سکتے ہیں وہ چاہے آپ اس کے ماتحت ہی کیو نہ ہو۔
آپ نے وہ کہانی تو سنی ہی ہوگئی کہ سفر کرتے ہوئے راستے میں شیر، لومبری اور بھیڑیا کو تین شکار ملتے ہیں، جس میں ایک خرگوش، نیلی گائے اور ہرن ہوتا ہے۔ جس پر بھیڑیا کو شیر شکاروں کی تقسیم کرنے کو کہتا ہے تو اس پر احمق بھیڑیا فوراً اتراتے ہوئے بغیر کچھ سوچے منصفانہ تقسیم کرنا شروع کر دیتا ہے کہ نیلی گائے شیر کیلئے، خرگوش لومبری کیلئے اور خود کیلئے ہرن رکھتا ہے۔ اس عمل پر شیر کو خوب غصّہ آجاتا ہے کیونکہ شیر برابری کی اس تقسیم کو بے ادبی کے ساتھ منسوب کرتا ہے اور فوراً بھیڑیا کو موت کی گھاٹ اتار دیتا ہے۔
اس کے بعد شیر لومبری کو تقسیم کا کہتا ہے تو لومبری شیر سے کہتی ہے کہ حضور تقسیم کیسی، نیلی گائے آپ کیلئے جو آپ ابھی کھائے گئے، ہرن شام کے کھانے کیلئے اور اگر درمیان میں کچھ گنجائش رہی تو خرگوش نوش کر لئے گئے۔ جس پر شیر اس کی اس تقسیم کو انصاف پسندی کی بہترین مثال سمجھتے ہوئے تمام جانور تحفہ کے طور پر لومبری کے حوالے کر دیتا ہے۔
اعلیٰ بننے سے احمق پن میں زیادہ حکمت ہے کیونکہ بہت سے لوگ ہوتے ہیں جو آپ کے کام میں ٹانگ اڑاتے ہیں۔ جب آپ احمق پن کا اظہار کرتے ہیں تو ایسے لوگ آپ کی شخصیت سے ہمیشہ دھوکا کہا جاتے ہیں اور آپ کی طرف سے بے فکری کا اظہار کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ جس سے آپ کو اپنے کام کی کامیابی میں آسانی ہو جاتی ہے۔
آپ کی حاصل کوئی بھی چیز ہمیشہ دوسروں کی نگاہوں میں کھٹکتی ہے۔ جس پر لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ یہ ہمیں حاصل ہو جائے اور اگر ہمیں حاصل نہیں تو ان کی دوسری کوشش یہ ہوتی ہے کہ اسے بھی حاصل نہیں ہو۔ کسی چال کے چلتے ہوئے اس مہارت سے کام لیا جائے کہ آپ کے کاندھوں پر بیٹھے فرشتے بھی اس علم سے انجان رہے۔
ہمیشہ یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ ہر اس شخص کو جو کسی ادارے میں بیٹھے اپنے مد مقابل دوسروں پر برتری کا اپنی صلاحیتوں کی طاقت کی بنیاد پر ممتاز و منفرد بنتا ہے تواس شخص کو سب سے زیادہ حسد ؤ نفرت کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔

وہ چاہے کسی سکول میں بیٹھا کوئی طالب علم ہو یا پھر ملٹی نیشنل کمپنی کا رکن۔ ہمیشہ ایسی جگہوں پر سب سے آگئے بڑھنے کا ہر شخص امیدوار ہوتا ہے۔ جب دوسرے امیدوار خود کو اس چیز میں ناکام پاتے ہیں تو پھر گرپوں کی صورت میں حملہ آور ہوتے ہیں اور ہمیشہ تضہیک آمیز رویے برتتے ہیں کیونکہ ان میں سے ہر دوسرے شخص میں یہ خام خیالی پائی جاتی ہے کہ اگر یہ شخص نہ ہوتا تو اس کی جگہ پر میں ہوتا اور یقیناً وہ میں ہی ہوتا وہ چاہے کتنا ہی نالائق کیوں نہ ہو۔ جب آپ احمق پن کا مظاہرہ کریں گے تو یقیناً دوسرے اس بارے میں گمراہ رہے گئے کہ اس پر قسمت کی دیوی مہربان ہے اور ناکہ اس کا خود کا کچھ کمال شامل ہیں اور اس جواز کے ساتھ خود کی نالائقی پر خود کو مطمئن کرتے پھریں گے۔
ہر شخص کو پتہ ہوتا ہے کہ میں کیا ہو اور یہ چیز بڑی آسانی سے ہضم بھی ہو جاتی ہے لیکن یہ بات کبھی کسی کو ہضم نہیں ہوتی کہ کوئی ہم سے زیادہ قابل کیسے ہوسکتا ہے اور یہ کسی کو بھی ہضم نہیں ہوتی ہے۔
لوگ آپ کی خوبیوں سے ایسے حسد کرتے ہیں جیسے آپ نے ان سے چورائی ہو، لیکن آپ کی ذات میں خامیاں دیکھنے پر ایسا رویہ اپناتے ہیں جیسے کہ وہ خود ہر قسم کی خامیوں سے پاک ہو ۔
جو لوگ کھلی کتاب کی طرح اپنے قول و فعل میں ایک جیسے ہوتے ہیں وہ ہمیشہ حاسدوں کے ہاتھوں بڑی ہی آسانی کے ساتھ استعمال ہو جاتے ہیں۔ اپنی چالوں کو چلتے ہوئے دوسروں سے چھپانا کوئی غیر مہذب عمل نہیں بلکہ یہ ایک بہترین احتیاطی تدابیر ہے جو دوسروں کی طرف سے پیدا کئے جانے کے خطرات سے آپ کو محفوظ رکھتی ہے۔ جب آپ کھلی کتاب کی طرح رہتے ہوئے معاملات سے نمٹتے ہیں تو پھر لوگ آپ کو کسی بھی موڑ پر بڑی ہی آسانی سے آپ کے ساتھ کھیل جاتے ہیں۔
ٹھیک ایسے ہی دوسروں کے ساتھ معاملات کریں اور کبھی بھی کسی کی ظاہری حالت سے متاثر ہوکر فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔ چاہیے کوئی شخص ہو یا پھر چیز جس طرح آپ دوسروں کو متاثر کرنے کیلئے طرح طرح کے فن کرتے ہیں تو ٹھیک ایسے ہی دوسرے لوگ بھی اس میں مہارت رکھتے ہوتے ہیں اور جو بڑی آسانی سے تصویر کے ایک روخ کو دیکھا کر استعمال کر جاتے ہیں۔
جب آپ لوگوں کو ان کی ظاہری حالت کے حساب سے تولتے ہیں تو پھر دوسروں کے تھوڑا سا کسی چیز میں اچھے ہونے کی بنیاد پر آپ یا تو احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں یا پھر آپ میں حسد جیسے جذبات ابھرتے ہیں جو یہ دونوں ہی آپ کی شخصیت  کیلئے تباہ کن نتائج کا سبب بن سکتے ہیں۔ کسی چیز یا شخص کی ظاہری حالت سے مرعوب ہونا انتہائی احمقانہ عمل ہے۔
ظاہری طور پر بڑا بننے کی خواہش کو جس طرف سے بھی دیکھا جائے یہ آپ کے حق میں کم لیکن آپ کی شخصیت کے خلاف زیادہ ہوتی ہے اور ٹھیک اندرونی طور پر اعلیٰ ہونے کی امنگ ہر طرح سے آپ کے حق میں ہے۔
اعلیٰ ہونے کیلئے اندرونی طور پر اعلیٰ شخص بن جائے اور اگر ظاہری طور پر دوسروں کو متاثر کرنے کیلئے اعلیٰ بننے میں لگے رہے تو اس سے آپ کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا، نا ہی لوگ اور نہ اپنا آپ۔ اگر آپ دوسروں کو مرعوب کرنے میں لگے ہوئے ہیں تو دوسروں کا تو پتہ نہیں مگر آپ کا اپنا آپ ضرور کہیں کہو جائے گا۔
وہ بنے جو آپ بننا چاہتے ہیں کیونکہ دنیا کو آج تک کوئی بھی خوش نہیں کر پایا، اس سے کم از کم آپ اپنے آپ کو تو پر سکون پاؤں گئے۔