پرانے زمانے کی بات ہے کہ ایک ریاست جو دنیا جہاں کی کے تمام قدرتی وسائل ہونے کے باوجود بھی اے دن بدحالی کی طرف جارہی تھی۔ اس ریاست میں بسنے والے مالی لحاظ سے اچھے اچھے گھرانوں کو بھی ایک وقت کے کھانے کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ بھوک افلاس چاروں اطراف ریاست میں شیطانی سایوں کی طرح گھومتی پھرتی ہوئی لوگوں کی ایک بڑی تعداد کی روحیں نگلنے کے ساتھ ساتھ باقیوں کے خوف سے چہروں کو مسخ کردیا تھا۔ ہر طرف قحط سالی کا موسم اپنے عروج پر چھایا ہوا تھا۔ اس ریاست کا ایسا کوئی کونا نہیں تھا جو اس قحط سالی سے محفوظ بچا پڑا ہوں۔ انسان تو انسان درختوں پر سبزے کا ناموں نشان نہیں تھا، زمین پر ہریالی نام کی کوئی چیز نہ تھی، کنوؤں کو خود کا حلق گیلا کرنے کیلیئے بھی پانی نصیب نہیں تھا، زمین کی بھوک کی شدت سے یہ حالت تھی کہ اس میں جو کچھ بھی بویا جاتا وہ کچھ واپس دینے کی بجائے بھوک سے نڈھال ہونے کی وجہ سے خود ہی ہضم کر جاتی۔

مگر اس کے قریب ہی ایک چھوٹی سی ریاست اے دن خوشحالی کی طرف دن دگنی رات چوگنی ترقی کی راہ پر گامزن تھی اور وہ بھی تمام اقسام کے قدرتی وسائل نہ ہونے کے باوجود۔

اس ریاست کا سبزہ ایسا شفیق کہ دکھی چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے کا کام کرتا، اس کے کنویں ایسے ہمدرد کہ پیاسوں کی پیاس مٹاتے، اور اس کی زمین کم زرخیزی کے باوجود اس قدر سخی کہ کچھ بھی ڈالا جاتا تو دُگنا واپس کرتی، خوشحال ریاست کے بادشاہ کی نیک نامی کے چرچے سن کر مایوس لوگوں کو امید کی کرن مل جاتی۔ جیسے اعلیٰ درجے کی اچھائی ہمیشہ خود سے ہی خوشبوں کی طرح سفر کرتی ہوتی ہے۔

جب یہ خوبصورت مہک بد حال ریاست کے مظلوموں تک پہنچی تو ہزاروں کی تعداد میں لوگ اے دن امید کی کرن دل میں بسائے ہجرت کر کے خوشحال ریاست میں جانے لگے۔ ادھر اس حال میں بھی بد حال ریاست کا بادشاہ اپنے محل میں آرام و سکون سے ہزاروں کنیزوں اور خوشامدی چمچوں کے گرد عیش وعشرت میں ایسا سویا پڑا تھا جیسے اسے ریاست سے کوئی سروکار ہی نہ ہو۔

اس پر ایک وزیر ہمت سے کام لیتے ہوئے کہا جہاں پناہ! ایک بڑی تعداد میں نمک حرام لوگ جوق در جوق ہجرت کر کے ساتھ والی ریاست میں اے دن جارہے ہیں۔ اگر اسطرح چلتا رہا تو وہ دن دور نہیں جب پوری کی پوری ریاست خالی ہوکر رہ جائے گی۔ مگر اس بات کو بادشاہ غیر اہم خیال کرتے ہوئے ذرا کان دھرنا بھی گوارہ نہ کیا۔

ایک وقت کے بعد جب ریاست سے ایک تھائی لوگوں کی ہجرت کی خبر بادشاہ تک پہنچی تو اس پر غصے سے لال پیلا سا ہوکر یہ کہتے ہوئے فوراً اٹھ بیٹھا کہ اسطرح تو پوری کی پوری ریاست خالی ہو جائے گئی اور میری حکومت صرف سوکے گھاس پُھوس کے پتوں، خشک پودوں، بنجر زمینوں، پتھروں اور مردہ دریاؤں پر رہتی رہ جائے گی۔ فوراً اجلاس طلب کرنے کے ساتھ وزیروں اور مشیروں سے مشورہ کرنے کے بعد ریاست سے باہر جانے والے لوگوں پر پابندی عائد کرنے کے ساتھ ہی چند لوگوں کے ساتھ ایک دانا وزیر کو خوشحال ریاست کے رازوں کا پتہ لگانے کو بھیجا کہ مجھے اس بات کے بارے میں معلومات فراہم کی جائیں کہ ایسا کیا عمل ہے جو قدرتی وسائل نہ ہونے کے باوجود بھی وہ ریاست خوشحالی کی طرف تیزی سے گامزن ہے۔ لیکن ہمارے یہاں تمام قسم کے قدرتی وسائل ہونے کے باوجود بھی قحط سالی کے دیڑے لگے ہوئے ہیں۔

دانا وزیر سمیت دیگر چند ایک لوگ خوشحال ریاست میں جاتے ہی فوراً اس کے بارے میں جاننے کی جستجو کے ساتھ صبح و شام لوگوں کے کام کرنے کے طریقے کار کو جانننے میں لگ گئے۔ کسانوں سے لے کر فوجیوں تک، وزیروں مشیروں سے لے کر سپاہ سالاروں تک کی زندگی کے ہر چھوٹے بڑے شعبے سے وابستہ لوگوں کا بغور جائزہ لینے سے کچھ بھی ہاتھ نہ آیا۔

اس ریاست میں کوئی بھی ایک کام ایسا خاص نہیں تھا جو ان کی ریاست میں لوگ نہ کرتے ہوں۔ وزیر کے بہت سوچنے کے بعد اسے اندازہ ہوا کہ جو بھی کچھ بات ہے وہ عوام میں نہیں بلکہ یہاں کے بادشاہ کی شخصیت میں ہے۔ جب اس نے بادشاہ کے عمل کو دیکھا تو بادشاہ کی ایک عادت تھی وہ یہ کہ صبح کا سورج نکلنے سے پہلے ہی بستر کو چھوڑتا اور شام کا سورج غروب ہونے تک اپنی ریاست کے تمام چھوٹے بڑے کام خود کی نگرانی میں سر انجام دیتا اور تب تک بستر کے قریب نہیں بھٹکتا تھا جب تک ریاست کے تمام چھوٹے بڑے کام خود سے انجام نہ دے لیتا تھا۔ اسطرح وه دنوں کے کام گھنٹوں میں اور مہینوں کے کام ہفتوں میں کر لیتا تھا۔ عیش و عشرت کی زندگی جو بادشاہوں کے رگوں میں خون کی طرح دوڑتی ہوتی ہے وہ ان چیزوں کے نام تک سے بھی نا آشنا تھا۔

 

تو وزیر سمجھ گیا کہ ہماری ریاست کے پاس ایک ایسے بادشاہ کی کمی ہے کیونکہ جب بھی کسی قوم یا شخص پر زوال کا آنا شروع ہوتا ہے تو اس پر سب سے پہلے کاہلی نام کی چیز حاوی ہوتی ہے اور ایسی حالت میں پتا ہی نہیں چلتا کہ قوم ہو یا پھر کوئی شخص عرش سے فرش پر پڑا ملتا ہے۔ عیاشیاں آرام و آسائش طلبی کی زندگی انسانی صلاحیتوں کو ایسے نگل جاتی ہیں جیسے دیمک لکڑی کو کھا جاتی ہوتی ہے اور ہمارا بادشاہ بد قسمتی سے کاہل اور عیاش دونوں ہیں۔

کسی قوم کیلئے خدا تعالیٰ کی طرف سے اعلیٰ صلاحیتوں کے حاکم سے بڑی نعمت کوئی اور ہو ہی نہیں سکتی ہے، اور ٹھیک ایسے ہی کسی قوم کیلئے اس سے بڑی سزا ہو ہی نہیں سکتی کہ اس پر ایک نا اہل شخص مقرر کردیا جائے۔ ایک اہل انسان کے تابع نااہل لوگ بھی اس کے زیر سایہ اہل بن جاتے ہیں اور جبکہ نااہل انسان کی نااہلی اس کے ساتھ ساتھ اس کے زیر سایہ وہ چاہے کوئی چیز ہو یا پھر انسان اس کی نحوست کے اثرات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی ہے اور جس کے اثرات سے چلتے دریا رک جاتے ہیں، برستی بارشیں ٹھر جاتی ہیں، زرخیز زمینیں بنجر زمینوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں، بہار جیسے خوبصورت موسم بھی خزاں جیسی صورت میں ڈھل جاتے ہیں اور ہمیشہ ان کے وجود کے ہونے کی وجہ سے بنتے کام بگڑ کر رہ جاتے ہیں۔

کسی بھی قوم کا معراج اس کے حاکم کی ذات کے اعلیٰ ہونے میں ہیں، وہ چاہے قوم کتنا ہی نا اہل کیوں نہ ہو، کسی بھی قوم کا زوال اس کے حاکم کے نا اہل ہونے سے ہوتا ہے وہ چاہے قوم کتنا ہی اعلیٰ کیوں نہ ہوں۔