دنیا میں موجود ہر انسان کسی دوسرے کو خود کے مفادات کیلئے استعمال کررہا ہے یا پھر کسی کے ہاتھوں استعمال ہو رہا ہیں۔
انسانیت کی ابتداء سے اب تک انسان ہمیشہ سے دو چیزوں کا شدت سے طلبگار رہا ہے، ایک دولت اور دوسرا طاقت کا۔ اگر ان دونوں کا موازنہ کیا جائے تو پھر ہمیشہ سے پہلے طاقت کے حصول کو زیادہ اہمیت دی جاتی رہی ہے کیونکہ طاقت کے حصول کے ساتھ تمام اقسام کی دولتوں کے دروازے بھی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے کھل جاتے ہیں۔
دنیا کے وجود میں آنے کے بعد شروعاتی دور میں جو انسان سب سے زیادہ جسمانی طور پر مظبوط اور طاقتور ہوتا وہ ہمیشہ دوسرے کمزور لوگوں پر برتری رکھتا اور ان پر ہر طرح سے غالب رہتا تھا۔ جبکہ دوسری طرف کمزور اپنے سے زیادہ طاقتور لوگوں کے شر سے محفوظ رہنے کے لئے گروہوں کی صورت میں رہنے لگے، جو آگے چل کر قبیلوں کی صورت میں تبدیل ہو گئے اور ایک قبیلے کا سردار ہی اس کا سب سے بالاتر شخص ہوتا تھا۔
ایک وقت گزرنے کے بعد قبیلے ریاستوں کی صورت میں ڈھل گئے، جس میں ایک خود مختار ریاست کا بادشاہ اس میں بسنے والے تمام افراد کے سیاہ و سفید کا مالک ہوتا اور اس بادشاہ کی موت کے بعد اس کا منتخب کردہ وارث ہی اگلا بادشاہ ہوتا تھا۔ رعایا پر بادشاہ کئی کئی قسم کے ٹیکس خود کی عیاشی کے لیے لگاتے اور ساتھ ہی اپنی زمینی لالچ اور خزانوں کے ہوس کو پورا کرنے کے لیے عوام پر کئی سالوں تک نہ ختم ہونے والی جنگیں مسلط رکھتے تھے۔ یہاں تک کہ کسی دوسری ریاست کی کوئی حسین و جمیل لڑکی پسند آجاتی تو اس کے حصول کے لیے بھی لاکھوں جانوں کی قربانیاں دینے سے ذرا سا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے تھے۔
بادشاہوں کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ آسمانی مسودے کی طرح مانے اور پوجے جاتے اور ان پر عمل کرنا رعایا کی جانوں پر فرض ہوتا تھا۔ لوگ راتوں کو سوتے صبح سویرے اٹھتے تو بادشاہ کوئی نیا مذہب اپنایا ہوا ہوتا جو انہیں اپنے مفادات کے مطابق لگتا تو اس پر پوری کی پوری ریاست کی عوام پر اپنے پہلے والے مذہب کو چھوڑ کر بادشاہ سلامت والے نئے مذہب کی پَیرَوی کرنا فرض ہو جاتا تھا، چاہے وہ بادشاہ کا نیا مذہب خود سے ہی ایجاد کیا ہوا ہی کیوں نہ ہوتا۔
بعض شہنشاہ تو اس سے بھی دو قدم آگے کو بڑھ کر خود کو ہی دیوتا کہلواتے اور جبکہ دوسری طرف رعایا اپنے جیسے ہی انسانوں کی پوجا کرنے پر مجبور ہوتی تھی۔ انسانیت کی حیثیت جاگیر سے زیادہ کچھ بھی نہیں تھی اور ہمیشہ مالک وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتے رہتے اور جو بھی شہنشاہ زیادہ سے زیادہ طاقتور ہوتا وہ اپنے سے کمزور کو شکست دے کر نا صرف ریاست بلکہ اس میں بسنے والی رعایا کا بھی مالک بن بیٹھتا تھا اور لوگ ہمیشہ اسی سلوک کے مستحق ٹھہرتے جو مالک کا دل کرتا ہوتا تھا۔
بادشاہ اپنی شہزادیوں کو جہیزوں کی صورت میں ریاستے تحفوں کے طور پر دیتے اور شہزادوں کے درمیان تقسیم در تقسیم کی جاتی تھی۔
اصول نام کی کوئی بھی زمین پر چیز نہیں تھی اور نہ ہی کوئی قانون نام کا لفظ، بس وہی اصول ہوتے تھے جو شہنشاہوں کی خواہشات اور جبکہ قانون وہی جو ان کے منہ سے نکلے الفاظ ہوتے تھے۔ یہ طریقہ کار زمین پر کئی ہزاروں سالوں تک محیط رہا۔ کوئی بھی قابل شخص ایسے نظام میں آگے نہیں بڑھ سکتا تھا، سوائے جو بادشاہوں کے منظورِ نظر ہوتے تھے۔ وہ چاہیے گدھوں اور کتوں کو بھی اپنی ریاست کے وزیر اور مشیر جیسے عہدوں پر فائز کیوں نہ کر دیتے۔ رعایا کو بادشاہوں کے اسطرح کے فیصلے بھی ماننے پڑتے تھے۔ کوئی بھی قابل شخص بادشاہوں کے دربار سے ہوتے ہوئے بغیر کسی قسم کی کوئی بھی غیر معمولی کامیابی نہیں سمیٹ سکتا تھا۔
اسی وجہ سے دنیا میں جو کچھ بھی ترقی ہوئی ہے وہ چاہے کسی بھی شعبے میں اٹھا کر دیکھا جائے تو وہ اس گندے گلے سڑے نظام کے بعد ہی ہوئی ہیں۔
وقت بدلا لوگ بدلے پھر سرمایہ دارانہ نظام راج ہوا۔ اگرچہ یہ نظام بھی اچھا نہیں تھا مگر اسے پہلے والے سے بہتر کہہ سکتے ہیں۔ جس میں صرف اور صرف ایک ہی شخص ریاست کے تمام وسائل پر قابض ہونے کے ساتھ ساتھ عوام کے سیا ہ سفید کا مالک بن بیٹھتا تھا اور زمین پر خدائی دعویٰ دار کہلاتا تھا۔ یہ ایک انسانیت کے لیے بہترین تبدیلی تھی۔ جس میں طاقت ایک شخص سے نکل کر زیادہ سے زیادہ لوگوں کے ہاتھوں میں آئی اور اس سے لوگوں کے بند ذہنوں میں بھی انقلاب رونما ہوئے۔ نئے نئے نظریات اور سائنسی ایجادات کا وجود ہوا جو ایک بہترین دنیا کی طرف انسانیت کی پیش قدمی کا باعث بنا۔ مگر اس میں بھی چند ایک لوگ پوری طرح سرمائے پر قابض تھے اور پھر جمہوریت جیسا انقلاب نمودار ہوا۔ جس سے تمام اقسام کی شخصی اور مذہبی بالادستی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم ہوگئی اور ہر قسم کی آزادی سے لوگوں کو اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کیلئے جمہوری نظام ان سب خواب دیکھنے والی آنکھوں اور کچھ کر دکھانے والے غیر معمولی لوگوں کےلئے بہترین نظام ثابت ہوا۔
اس کے ساتھ پچھلی صدی میں ایک اور زبردست انقلاب رونما ہوا اور وہ ہے انفارمیشن کا، آج کا دور انفارمیشن کا دور ہے۔ آپ کو وہ سب کچھ حاصل ہے جو آج سے ایک سو سال پہلے کے لوگوں کو میسر نہیں تھا۔ جمہوریت کے وجود کے آنے سے پہلے تک جتنا بھی طاقتیں وجود رکھتی ہوتی تھی وہ سب کی سب لوگوں پر زبردستی مسلط رہتی اور عوام کو جسمانی طور پر خود کے کنٹرول میں رکھتے ہوئے اپنے ذاتی مفادات کیلئے خوب استعمال کرتی، اور ان کی رضا کے بغیر ہی ان پر حکومت کرتی تھی۔ مگر اب اس قسم کی طاقت کسی طرح بھی قابلِ قبول نہیں رہی۔ اب طاقت کا کچھ اور ہی مطلب ہے اور وہ ہے آپ اپنے دماغ کی طاقت کے ساتھ کس قدر دوسروں پر اثر انداز ہوتے ہوئے اپنے نظریات پر جمع کر سکتے ہیں یا پھر لوگوں کے ذہنوں کی کتنا اعلیٰ انداز میں اپنے حق میں پروگرامنگ کرتے ہوئے اپنے نقتہ نظر کو بیچتے ہوتے ہیں۔
آج ہر سیاسی جماعت اپنی پارٹی کا منشور بناتے ہوئے اس انفارمیشن کے ذریعے کا استعمال کرتی ہیں اور اسی انفارمیشن کے مطابق ہی اپنا پالیسیاں تشکیل دیتی ہوتی ہیں یا پھر اسی انفارمیشن کی طاقت کو استعمال میں لاتے ہوئے اعلیٰ قسم کی حکمت عملیوں کے تحت عوام کے خیالات کی خود کے حق میں پروگرامنگ کر کے اپنے مفادات کے حساب سے ہی ان کے نظریات کو تشکیل دیتی ہوتی ہیں اور اپنی مخالف پارٹیوں کو زیادہ سے زیادہ نقصانات پہنچانے کیلئے ان کے خلاف پروپیگنڈے کو انفارمیشن کے ذریعے ہی پھیلایا جاتا ہے۔ اسی طرح بڑی بڑی کمپنیاں زیادہ سے زیادہ اپنی فروخت کو بڑھانے کیلئے اپنی نئی نئی مصنوعات اور خدمات دینے سے پہلے انفارمیشن کو سامنے رکھتے ہوئے عوام کی دلچسپیوں کے حساب سے ہی چیزوں کو ترتیب دیتی ہوتی ہیں اور زیادہ تر ایک بہترین حکمت عملی کے تحت اپنے پراڈکٹس کو اسی انفارمیشن کا استعمال کرتے ہوئے دوسروں کی ضرورت بنانے میں انتہائی مہارت سے کام لیا جاتا ہے۔
انفارمیشن کا ہونا اپنے آپ میں ایک بڑا انقلاب ہے اور اس کی اہمیت پر پہلے سے ہی بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ لیکن ہم آگے چل کر اس کے دوسرے پہلو پر بات کریں گے۔
کسی بھی تصویر کے ہمیشہ دو رخ ہوتے ہیں اور ہم اس کے دوسرے والے حصہ کو جانے گے کہ کیسے بطور ذریعہ انفارمیشن کے ذریعے ہم انسانوں کی پروگرامنگ کی جاتی ہے خود کے مفادات کے حصول کیلئے اور اس چیز سے ایک عام انسانی دماغ کیوں بے خبر رہتا ہوتا ہے ؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس سے لاعلمی کی وجہ سے آج کے کروڑوں انسان روبوٹس مشینوں کی طرح دوسروں کے مفادات کیلئے استعمال ہوتے ہیں ایک ایسے دماغ کے ہاتھوں جو پردے کے پیچھے بیٹھ کر اپنے دماغ کے استعمال سے انفارمیشن کے ذریعے لوگوں کی اپنے حق میں پروگرامنگ کررہا ہوتا ہے۔
طاقت، سرمایہ اور انفارمیشن کا ہونا یہ سب اعلیٰ ترین ذریعے ہیں لیکن ان ذریعوں کو استعمال کرنے کیلئے اعلیٰ طریقوں کا بھی ہونا ضروری ہیں۔
کوئی بھی ذریعہ اس وقت تک کامیاب نہیں ہوتا جب تک اس کے ساتھ ایک بہترین طریقہ کار استعمال نہیں کیا جاتا ہوتا ہے،
ہم ذریعے اور طریقے میں فرق سمجھنے کے ساتھ آگے چل کر ان سب طریقوں کے تمام بڑے اور چھوٹے لیولز کا غور سے مطالعہ کرنے کے ساتھ یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ کیسے استعمال کرنے والے استعمال ہونے والوں کے خلاف بطور ہتھیار ان طریقوں کو استعمال کرتے ہوتے ہیں اور استعمال ہونے والے استعمال کرنے والوں کے ہاتھوں اس قدر مجبور کیوں ہوتے ہیں جبکہ آج کے دور میں تو ہر انسان مکمل طور پر آزاد ہے ؟
لوگوں میں یہ غلط فہمی حماقت کی حد تک پائی جاتی ہے وہ یہ کہ طاقت اور سرمایہ کو ایک طریقے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اپنے بہت سے معاملات کو انہیں سے حل کرنے کی کوشش کرتے ہوتے ہیں اور اس وجہ سے معاملات حل ہونے کی بجائے الٹا بگاڑ کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں کیونکہ ان دونوں کا ہونا ایک ذریعہ ہے ناکہ طریقہ کار۔
جیسا کہ گاڑی کا ہونا سفر کیلئے ایک ذریعہ ہوتا ہے اور اس کے استعمال کا اچھے سے جاننا طریقہ کار اور اس سے آپ کتنا اعلیٰ انداز سے کام لیتے ہوتے ہے یہ آپ کی قابلیت پر ہے اور اگر گاڑی بطور ذریعہ آپ کے پاس ہے لیکن آپ چلانا نہیں جانتے اور پھر بھی حماقت سے کام لیتے ہوئے اسے چلاتے ہے تو یقیناً آپ حادثے کا شکار ہی ہوگئے اور یہاں تک کہ آپ کی جان بھی جا سکتی ہے۔
انفارمیشن کا ہونا بھی ایک ذریعہ ہے اور اس وجہ سے اکیلے انفارمیشن کا ہونا بھی خود سے کچھ نہیں اور آج دنیا میں ہر ناکام انسان کے پاس بھی اتنا ہی یہ دستیاب ہے جتنا کہ یہ کامیاب لوگوں کے پاس موجود ہے یا پھر شاید اس سے بھی زیادہ لیکن اس ذریعے کو استعمال میں لانے کیلئے ان لوگوں کے پاس ایک اعلیٰ طریقہ کار نہیں ہے جوکہ کامیاب لوگوں کے پاس موجود ہوتا ہے۔
دوسرا ہمیشہ تاریخ میں جن لوگوں نے طاقت کے بل بوتے پر حکومتیں قائم کی وہ ایسے واحد تو نہیں تھے جو اس قدر طاقتور تھے ؟
تاریخ کے اوراق پر ایسی ہزاروں معجزاتی دستانے بھی پرھنے کو ملتی ہیں جن میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ اپنے سامنے کھڑے لاکھوں پر غالب ملتے ہیں اور اس کی وجہ طاقت بذات خود ایک ذریعہ ہے، جیسا کہ رومی فوج جب سیرا کیوز پر حملہ آور ہوئی تو جنرل کلاڈیس اس جنگ کو کچھ وقت کا کھیل سمجھ کر میدان کی طرف بڑھے مگر اس قدر زیادہ طاقت کے باوجود اسے اس چھوٹے سے شہر کو فتح کرنے کیلئے تقریباً تین سال لگ گئے۔
رومی فوج کا سامنا سب سے پہلے شہر کے لوگوں کی بجائے سیرا کیوز کے ساحل پر لگائی گئی جنگی مشینوں سے ہوتا جو بڑے بڑے جنگی جہازوں کو پانی میں غرق کر دیتی اور مشینوں کے ساتھ ساتھ ایسے شیشہ بھی لگے ہوئے تھے جو سورج کی روشنی کے پڑنے سے رومی فوجیوں پر آگ برساتے۔
سیرا کیوز کے پاس طاقت کم تھی مگر اس تھوڑی طاقت کو استعمال میں لانے والا طریقہ کار اعلیٰ تھا کیونکہ ان کے پاس ارشمیدس جیسا دماغ موجود تھا جو روم جیسی طاقت کو صرف ایک دماغ نے تین سالوں تک شہر کے اندر نہیں کھسنے دیا جبکہ دوسری طرف روم کے پاس بہت ہی زیادہ طاقت تھی مگر وہ اس ذریعے کے ساتھ مکمل طور پر غرور سے سر شار ہوکر شہر پر حملہ آور ہوئے کہ یہ تو چند لمحوں کا ہی تو کھیل ہے اور اس وجہ سے ایک بھاری بھرکم نقصان انہیں اٹھانا پڑا۔
دوسری بات یہ کہ طاقتور کبھی بھی اس وجہ سے طاقتور نہیں ہوتا کہ وہ زیادہ سے زیادہ طاقت رکھتا ہوتا ہے، بلکہ یہ دوسروں کی کمزوریاں ہی ہوتی ہے جو طاقتور کی اصل طاقت ہوتی ہیں، کسی کو بھی صرف طاقت کے زور پر خود کیلئے استعمال ہرگز نہیں کیا جاسکتا ہیں بلکہ یہ دوسرے کی کمزوریاں ہی ہوتی ہیں جو اسے کمزور بناتی ہیں اور اس کے استعمال ہونے کی وجہ بھی یہی اس کی کمزوریاں ہی ہوتی ہیں۔ ہمارے پاکستانی معاشرے میں اس کی بہترین مثال خواتین کی ہے جن کی اکثریت شادی کے فوراً بعد اپنے خاوند کے ساتھ اس کے تمام گھر کے افراد کے ہاتھوں ایک عمر تک خاموشی سے استعمال ہوتی رہتی ہیں کیونکہ وہ خود کو نئے گھر میں بہت ہی کمزور دیکھتی ہوتی ہیں اور کسی بھی بات پر کوئی احتجاج تک نہیں کرتی ہوتی اور خاموشی خاموشی استعمال ہوتی رہتی ہیں۔
لیکن ایک وقت گزرنے کے بعد جب اس کے پچے پیدا ہو جاتے ہیں اور وہ جیسے جیسے بڑھتے چلے جاتے ہیں وہی خاتون اپنے پچوں کی بڑھوتری کے ساتھ ساتھ مظبوط ہوتی چلی جاتی ہے لیکن اس سب میں وہ اپنے پچوں کو خود کے ہاتھ میں رکھتی ہوتی ہے کیونکہ وہ بخوبی جانتی ہوتی ہے کہ یہ میری طاقت ہیں۔ وہی عورت جو گھر میں آنے پر اس گھر میں سب سے کمزور فرد ہوتی ہے اور دوسروں پر بالخصوص خاوند کی ذات پر انحصار کرتی ہوتی ہے لیکن ایک وقت کے بعد وہی سب سے مظبوط ترین گھر کی فرد کے طور پر حثیت رکھتی ہوتی ہے۔ جو پہلے دوسروں کے چاہیے بغیر کچھ بھی کرنے کی اسے آزادی تک نہیں ہوتی بعد میں اس کی منظوری کے بغیر گھر میں کچھ بھی نہیں ہوتا ہے وہ چاہیے خاوند ہی کیوں نہ ہو اس پر انحصار کرنے لگتا ہے کیونکہ گھر کی طاقت کا مرکز وہ عورت ہو جاتی ہے اپنے پچوں کی وجہ سے، لیکن اس تمام عمل میں اس کا خاوند پہلے کی طرح ہی طاقت رکھتا ہوتا ہے لیکن وہ عورت کمزور نہیں رہتی جوکہ اس کے خاوند کی پہلے اصل طاقت ہوتی ہے۔
آپ صرف اس وقت تک طاقتور ہیں جب تک دوسرا کمزور ہے اور آپ اتنا ہی طاقتور ہیں جتنا کہ دوسرا کمزور اور جیسے ہی اس کی کمزوری ختم ہوگئی آپ کی طاقت بھی اس وقت ختم ہو کر رہ جائے گی کیونکہ وہ جب تک کمزور ہے وہ اس وقت تک آپ پر انحصار کرتا ہوتا ہے خود کے وجود کو برقرار رکھنے کیلئے اور ساتھ ہی خاموشی کے ساتھ استعمال ہوتا رہتا ہے اور اسطرح طاقت بذات خود کچھ نہیں جب تک سامنے والا کمزور نہیں۔ ذریعے اور طریقے کے تعلق کو زیادہ واضح طور پر ہم ان دو مثالوں سے سمجھتے ہیں، ایک بار نوبل انعام یافتہ سری دی رمن کے شاگرد نے ان سے شکایت کی کہ اس کے پاس ریسرچ کے کام کرنے کیلئے ایک کیلوواٹ کا لمپ ہے جبکہ دوسرے ترقی یافتہ ممالک کے طالب علموں کے پاس جو میرے ہی درجے کے طالب علم ہوتے ہیں دس کیلوواٹ کا لیمپ ہوتا ہے تو اس شکایت پر رمن نے طالب علم سے کہا کہ تم اپنی ریسرچ کی تحقیق میں دس کیلوواٹ کا دماغ رکھ لو، ٹھیک ایسے ہی جب گلیلیو گلیلی کو سیاروں کے بارے میں مشاہدات کرنے تھے تو اس کے پاس ایک اعلیٰ قسم کا دماغ تو تھا لیکن سیاروں کو اچھے سے دیکھنے کیلیے کوئی بہترین ذریعہ نہیں تھا جو انہوں نے ایک دور بینی بنا کر جس کے ذریعے سے سیاروں کے مشاہدات کیے جو بغیر اس دور بینی کے ہرگز ممکن نہیں تھا۔
ٹھیک ایسے ہی اگر آپ کے پاس طاقت اور سرمایہ کی کمی ہے تو پھر ذہانت کا زیادہ سے زیادہ ہونا آپ کی اس کمی کو پورا کر دے گا اور ایسے ہی آپ کی ذہانت کی کمی کو زیادہ سے زیادہ طاقت اور سرمایہ کا ہونا بھی کسی حد تک پورا کرتا ہوتا ہے مگر صرف اکیلا ذریعہ وہ چاہیے انفارمیشن، طاقت یا پھر سرمایہ کی صورت میں کیوں بھی ہو یا پھر اکیلا طریقہ کار اس سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔
ذریعہ استعمال طاقت، سرمایہ یا پھر انفارمیشن میں سے کوئی بھی ہو لیکن ہر دور کے انسانوں کے درمیان ہمیشہ سے مفادات کے حاصل کیلئے جنگ رہی ہے۔
انسان کے نظریات ہی وہ چشمے ہیں جہاں سے انسانی عمل کا بہاؤ ہوتا ہیں اور پھر یہی انسانی اعمال ہی ہوتے ہیں جو اس دنیا کو ایک شکل دیتے ہوتے ہیں۔ انسانوں کے نظریات ہمیشہ ان کے مفادات کی بنیادوں پر کھڑے ہوئے ہوتے ہیں اور ہمیشہ انسان کو وہ چیز غلط لگتی ہے چاہے وہ کتنا ہی درست کیوں نہ ہو جو اس کے مفادات کے برعکس ہو اور ٹھیک ایسے ہی ہر وہ بات درست لگتی ہوتی ہے چاہے وہ غلط ہی کیوں نہ ہو جو اس کے مفادات کو تحفظ فراہم کررہی ہوں۔
جیسا کہ اگر ہم کسی دوسرے کے ساتھ دھوکا کریں تو اسے چالاکی کا نام دیتے ہیں جبکہ اگر کوئی دوسرا شخص ہمارے ساتھ اسی عمل سے پیش آئے تو اسے دھوکا اور عیاری کہتے ہیں، اگر ہماری طرف سے بغاوت ہو تو وہ انقلاب اور اگر کوئی دوسرا ہمارے خلاف انقلاب لا رہا ہو تو اسے بغاوت کا نام دیتے ہیں، مذہب کے نام پر مارنے والے خود کو جہادی جبکہ دوسری طرف کے لوگوں کو کافر جبکہ دوسری طرف سے بھی خود کو جہادی کہتے ہیں، اگر ہمارا کوئی قتل ہو تو وہ شہید جبکہ دوسری طرف سے وہی قتل جہنمی اور ہمارے لیے جو شہید ہیں وہی ہمارے مخالف کے کیلئے جہنمی اور مخالف کا شہید ہمارے لیے جہنمی، ہمارا ساتھ دینے والے حق اور سچ کا ساتھ دینے والے جبکہ دوسری طرف سے کھڑے لوگ غلط۔
یہاں پر ہر انسان کیلئے اچھائی اور برائی کا معیار اس کے اپنے مفادات کے حساب سے جڑا ہوا ہوتا ہیں اور اس وجہ سے ہر کسی کے ہاں اچھائی اور برائی کے معنی بھی بہت مختلف ہوتے ہیں۔
ہم سے غلطی ہو جائے تو فوراً یہ بات کہتے ہیں کہ معذرت انسان تو خطاؤں کا پتلا ہے اور توقع کرتے ہوتے ہیں کہ لوگوں کا اس پر ردعمل بھی اچھا ہوں جبکہ وہی غلطی کسی دوسرے سے سرزد ہو جائے تو فوراً اسے شیطانی کردار سے تشبیہ دے دیتے ہیں، ہم ہمیشہ کہانی کے اس حصہ کو سناتے ہوتے ہیں جو ہمیں سچا ثابت کریں جبکہ تصویر کے دوسرے رخ کو ہمیشہ چھپا دیا جاتا ہے جس سے ہمارا جھوٹا ہونا ثابت ہو، طالب علم اچھے نمبر حاصل کر جائے تو سارا کا سارا کریڈٹ خود کی ذات کو دیتے ہیں اور اگر فیل ہو جائے تو اس کی ذمّہ داری ادارے پر ڈال دیتے ہوتے ہیں جبکہ ٹھیک ایسے ہی ادارے بھی اسی حکمت پر عمل پیرا ہوتے ہیں، موجودہ حکومتیں اپنی ناکامیوں کی ذمّہ داری پیچلی حکومتوں پر ڈال دیتی ہیں جبکہ پچھلی حکومتوں کی کامیابیوں کے کریڈیٹ بھی خود کھا جاتی ہیں، حقوق کی بات آئے تو ہم سب صف اول میں کھڑے ملتے ہیں لیکن فرائض کے معاملے میں آخر میں بھی نہیں نظر آتے ہوتے ہیں، اگر ہم خود کسی دوسرے سے بدتمیزی کریں تو مذاق جبکہ کوئی اور مذاق بھی کر لے تو بدتمیزی، ہمارا ظاہر کچھ ہوتا ہے باطن کچھ اور، دل میں کچھ ہوتا ہیں زبان پر کچھ، منہ پر کچھ کہتے ہیں لیکن اس کے جاتے ہی پیٹھ پیچھے کچھ اور کہتے پھرتے ہیں۔ یہی ہے دنیا کی حقیقت کہ اس کے تمام اصول، نظریات اور لفظوں کے معنی خود کیلئے کچھ ہوتے ہیں جبکہ دوسروں کیلئے کچھ اور اس کھیل میں کوئی اخلاقیات نام کی چیز نہیں، ہمیشہ اخلاقیات کے معنی مفادات کے ساتھ تبدیل ہو جاتے ہیں، دنیا کے ہر انسان کے ہاں عمل کے معنی مختلف ہیں جو عمل کررہا ہوتا ہیں اس کے ہاں اس کے معنی کچھ ہوتے ہیں اور جس کے خلاف ہو رہا ہوتا ہیں اس کیلئے کچھ اور معنی ہوتے ہیں۔ ایک ہی عمل کے مختلف معنوں کی اصل وجہ اس کے پیچھے چھپے انسانوں کے اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں جوکہ ایک انسان خود کے غلط کو بھی درست جبکہ دوسرے کے درست کو بھی غلط کہتا ہیں اور دنیا میں ہمیشہ سے ایک انسان کے ذاتی مفادات کیلئے صحیح کچھ ہوتا ہیں جبکہ دوسرے کیلئے کچھ اور، اور اسطرح صحیح اور غلط کے معنی تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور یہ دنیا کی حقیقت ہیں، یہاں پر صحیح اور غلط کے وجود کی کوئی دور دور تک حقیقت نہیں ہیں۔
دنیا ایک ایسی شکار گاہ ہے جس میں چاروں اطراف سے مفادات کا کھیل کھیلا جارہا ہے اور اس میں ہر انسان کا مرکز مفادات کا حاصل ہے، اس کھیل کے میدان میں یا تو آپ جیت رہے ہیں یا پھر آپ ہار رہے ہیں، آپ اس کھیل سے آزاد نہیں ہوسکتے ہیں یا آپ دوسروں کو استعمال کررہے ہیں یا پھر دوسروں کے ہاتھوں سے استعمال ہورہے ہیں۔
اس کرہ ارض پر انسانیت کیلئے جس قدر ایک انسان خطرناک ہوسکتا ہے شاید ہی کسی دوسری مخلوقات یا پھر قدرتی آفات ہو، انسانیت کو آج تک جو نقصان خود انسان نے پہنچایا ہے اس کا ایک فیصد ہی کسی اور چیز نے نہیں دیا ہے۔
انسان اس کرہ ارض پر ایک واحد مخلوق ہے جو دوسروں کو اپنے مفادات کے حصول کیلئے استعمال کرنےمیں کسی بھی حد تک چلا جاتا ہوتا ہے۔
ہر دور کا انسان اپنے لیے یا پھر اپنوں تک ہی انسان رہاہے لیکن وہی انسان اپنے سے مختلف ہونے والوں کیلئے وہ چاہیے مذہب، نسل، رنگ یا پھر نظریہ کے اعتبار سے ہو ایک انسان سے بڑا حیوان کیوں بھی نہیں رہا ہے۔ اگر تاریخ کو دیکھے تو جو ایک انسان اپنے سے صرف مختلف ہونے کی بنیاد پر دوسرے انسانوں کو نقصان دیا وہ چاہیے جرمن نیازی کے ہاتھوں یہودیوں کی نسل کشی کا معاملہ ہو یا پھر ریڈ انڈین قبیلے کے ساتھ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا سلوک ہو یا موجودہ وقت میں اسرائیل کا فلسطینیوں کے ساتھ رویے کو دیکھا جائے۔
یووال نوح ہراری اپنی کتاب بنی نوع انسان کی مختصر سی تاریخ میں ایک واقع بیان کرتا ہے جو کچھ یوں ہے کہ 20 جولائی 1969ء کو نیل آرمسٹرانگ چاند کی سطح پر اتر گئے۔ اس مہم کی مشق کے لئے اپولو گیارہ کے خلانوردوں نے مغربی امریکہ میں چاند سے مماثل صحرا میں تربیت حاصل کی۔ یہ علاقہ بہت سے مقامی ریڈ انڈین آبادیوں کی آماج گاہ ہے۔ ایک روایت خلانوردوں اور ایک مقامی کے درمیان گفتگو کو یو بیان کرتی ہے۔
ایک دن مشق کے دوران خلانوردوں کو ایک بوڑھا مقامی امریکی ریڈ انڈین ملا۔ اس بوڑھے نے دریافت کیا کہ وہ وہاں کیا کر رہے ہیں ؟
انہوں نے جواب دیا کہ وہ ایک تحقیقاتی مہم کا حصہ ہیں جو جلد ہی چاند کو کھوجنے جانے والے ہیں۔ جب اس بوڑھے نے یہ سنا تو چند لمحوں کے لئے
خاموش ہو گیا۔ پھر خلانوردوں سے پوچھا کہ کیا وہ اس کا ایک کام کر دیں گے؟
کیا کام ؟ انہوں نے دریافت کیا۔
بھائی بوڑھے نے جواب دیا، میرے قبیلے کے افراد کا ایمان ہے کہ چاند پر مقدس ارواح مقیم ہیں۔ مجھے امید ہے کہ آپ میرے لوگوں کا ایک پیغام وہاں پہنچا دیں گے۔
کیا پیغام ہے ؟ خلانوردوں نے پوچھا۔
اس شخص نے اپنی مادری زبان میں کچھ کہا اور پھر خلانوردوں کو اسے بار بار دہرانے کو کہا۔
یہاں تک کہ انہوں نے اسے درست طور پر یاد کر لیا۔
اس کا مطلب کیا ہے؟ خلانوردوں نے دریافت کیا۔
تو اس پر اس بوڑھے نے کہا یہ میں آپ کو نہیں بتا سکتا۔ یہ ایک ایسا راز ہے جسے جانے کی صرف ہمارے قبیلے یا ماہتابی ارواح کو اجازت ہے۔
جب وہ اپنے اڈے پر واپس پہنچا تو خلانوردوں نے بہت تلاش کے بعد ایک ایسا شخص
جو اس پیغام کا ترجمہ کر سکے ڈھونڈ لیا۔ جب انہوں نے وہ دہرایا جو انہوں نے یاد کیا تھا تو مترجم قہقہے مار کر ہنسنے لگا۔ جب اس نے اپنے آپ پر قابوں پایا تو خلانوردوں نے اس سے اس کا مطلب دریافت کیا۔ اس آدمی نے بتایا کہ جو پیغام انہوں نے اس قدر احتیاط سے یاد کیا تھا اس کا مطلب ہے یہ لوگ جو بھی کہیں ان کے ایک لفظ پر بھی بھروسہ مت کرنا۔ یہ تمہاری سرزمین پر قبضہ کرنے کیلئے آئے ہیں۔
انسان، انسان سے ہی خوف زدہ ہے، کیونکہ ہر دور کے انسانوں کیلئے ایک انسان سے بڑا خطرہ کبھی کیوں اور رہا ہی نہیں ہے جبکہ دوسری تمام مخلوقات فطرت کے اصولوں کی ہمیشہ سے پابند رہی ہے اور وہ چاہیے شیر جیسا خطرناک جانور ہی کیوں نہ ہو بغیر کسی وجہ کے وہ انسانوں کو نقصان نہیں پہنچاتا ہوتا ہے جبکہ دوسری طرف انسان کیلئے کبھی کیوں اصول و ضوابط رہے ہی نہیں ہیں اور ہمیشہ سے انسانوں کے وہی اصول و قواعد ہوتے ہیں جو ان کے مفادات کی راہے ہموار کریں۔ اس کائنات میں انسان ایک ایسا خطرناک جانور ہے جو اپنے آپ پر اس قدر قدرت رکھتا ہوتا ہے جو جب چاہے جس لمحہ چاہیے وقت ضرورت اپنے آپ کو کسی بھی صورت میں ڈھال سکتا ہے اور ہر جگہ وہ اپنے مفادات کے حساب سے ہی اس رنگ میں بڑی ہی آسانی سے ڈھل جاتا ہوتا ہے جو رنگ اس کے مفادات کے مطابق ہوتا ہے۔
زمین پر موجود کسی بھی دوسری مخلوق کے ساتھ بغیر خوف آسانی کے ساتھ معاملات کیے جاسکتے لیکن انسان واحد مخلوق ہے جس سے معاملات کرنا مشکل ہے اور ہوجانے کے بعد اس پر اعتبار بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔
دنیا کی تمام مخلوقات کو سمجھنے کیلئے صرف ان کے ایک ایک عدد کو سمجھ کر آپ اس مخلوق کی تمام نسل کو سمجھنے کا دعویٰ کرسکتے ہیں لیکن ایک انسانی فرد واحد کو بھی نہیں سمجھا جاسکتا ہے۔
ایک انسان پچپن میں کچھ ہوتا ہیں، جوانی میں کچھ اور، اور اسطرح ہر آنے والے وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتا رہتا ہے اور اس سب میں ناصرف وہ خود بلکہ اس کے اردگرد پائے جانے والے لوگ بھی تیزی کے ساتھ بدلتے ہوتے ہیں، جو لوگ ماضی میں ایک انسان کیلئے سب کچھ ہوتے ہیں، حال میں اس کے ہاں ان کیلئے کوئی جگہ نہیں ہوتی ہے اور جو حال میں ہوتے ہیں وہ مستقبل میں نظر تک نہیں آتے ہوتے ہیں۔
آپ نے اکثر سنا ہوگا کہ لوگ بدل جاتے ہیں جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ لوگوں کے مفادات بدلتے ہوتے ہیں اور جس کی وجہ سے وہ بھی ویسی ہی صورت اختیار کرلیتے ہوتے ہیں جس میں ان کے مفادات کا حاصل ہوتا ہیں اور اس شکل میں تب تک رہتے ہیں جب تک اس حالت میں خود کے مفادات ان کو نظر آرہے ہوتے ہیں، آپ ایک انسان کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور کچھ وقت کے بعد سمجھ جانے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں لیکن ایک وقت کے بعد خود کو غلط پاتے ہوتے ہیں اور اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ پہلے تو آپ اسے سمجھے ہی نہیں ہوتے ہیں اور اگر سمجھتے بھی ہے تو وہ کچھ وقت کیلئے ویسا ہوتا ہے جو بعد میں مفادات کے بدلتے ہی آپ کی سمجھ کو بھی غلط ثابت کر دیتا ہوتا ہے۔ آپ ایک انسان کو اس وقت تک سمجھ نہیں سکتے ہے جب تک اس کی کسی بھی حرکت کے پیچھے چھپے مفادات کو نہیں جانتے ہوتے ہیں اور لوگ یہی حماقت کرتے ہوتے ہیں کہ اس انسان کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور جو کچھ وقت کے بعد دعویٰ کرتے ہوتے ہیں کہ ہم سمجھ گئے لیکن پھر زور دار جھٹکا تب لگتا ہے کہ جب ایک وقت کے بعد اپنے سامنے ایک نیا اور بھیانک چہرہ کھڑا ہوا پاتے ہوتے ہیں، انسان کا مزاج ہر جگہ مختلف ہوتا ہے کیونکہ اس کے مفادات مختلف ہوتے ہیں، بیوی کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے اس کے لبوں لہجہ مختلف ہوتا ہے اور وہی انسان کسی دوسرے کی بیوی سے یا پھر باس کے ساتھ مختلف طریقے سے پیش آتا ہوتا ہے جبکہ ملازمین کے ساتھ بالکل ہی مختلف رویہ اختیار کیا ہوا ہوتا ہے۔ انسان کا رویہ اور الفاظوں کی ٹون کے ساتھ لہجہ کا انداز بھی اس کے سامنے کھڑے مفادات کے عین مطابق ہوتا ہے اور مفادات کی تبدیلی کے ساتھ انسان بھی مکمل طور پر تبدیل ہوتا ملتا ہے اور اس وجہ سے کسی انسان کو سمجھنے کی بجائے اس کے مفادات کو سمجھے اور اسی میں ہی حکمت ہے۔
انسان کے اعمال کا ہر قدم ہمیشہ اس طرف اٹھتا ہوتا ہے جس طرف اس کے مفادات کا حاصل کھڑا ہوا اس کو نظر آتا ہوتا ہے اور اس کے حصول کیلئے ایک انسان ہر اس حرکت کو کر گزرتا ہوتا ہے جس سے اس کو اس کے مفاد کا حصول ممکن نظر آتا ہوتا ہے۔
یہ دنیا ایک ایسی جگہ ہیں جہاں پر ہر انسان کو اپنی اپنی ضرورت سے زیادہ سے زیادہ چاہیے جبکہ دنیا میں وسائل محدود ہیں۔
انسانی زندگی کی دو سٹیج ہیں، پہلی ضروریاتِ زندگی جوکہ ہر انسان کے زندہ رہنے کیلئے ضروری ہے اور یہ تھوڑی بہت کوشش سے ہر انسان کو حاصل بھی ہو جاتی ہے، اس سٹیج پر کھڑے لوگ بہت ہی کمزور قسم کے ہوتے ہیں۔
جب ایک انسان کو ضروریاتِ زندگی حاصل ہو جاتی ہے تو اس کا اگلا قدم خواہشات کے حصول کی طرف ہوتا ہیں جو کسی بھی انسانی زندگی کی دوسری سٹیج ہے۔
دنیا میں ہمیشہ سے ایک بڑی تعداد کے پاس ضروریاتِ زندگی تک کی اشیاء میسر نہیں ہوتی رہی جوکہ پہلی سٹیج پر کھڑے لوگ ہیں، جبکہ دوسری طرف کچھ ایسے محدود پیمانے میں بھی پائے جاتے رہے ہیں اور پائے جاتے ہیں، جو وہ ایک وقت کا خرچ کرتے ہوتے ہیں دوسرے اس سے ایک پوری زندگی ضروریات کے ساتھ گزار سکتے ہیں۔
ہر انسان کو دوسری سٹیج کو پانے کیلئے ناصرف اپنا حصہ بلکہ وہ زیادہ سے زیادہ کی خواہش کی تکمیل کیلئے دوسروں کے حصوں کو بھی ہڑپ کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہیں اور یہ دنیا میں ازل سے ہی انسان کی یہی فطرت رہی ہیں اور اس معاملے میں انسان نے اپنوں تک کو بھی نہیں بخشتا ہے، ایک ماں باپ کی اولاد، جو پوری زندگی ایک ساتھ محبت کے ساتھ ایک ہی گھر میں، ایک ہی والدین کے زیر سایہ، ایک ہی ماحول کے پلے بڑھے ہوئے اور ایک عقیدہ پر ایمان رکھنے والے مگر اکثر اس خوبصورت رشتے ہونے ہونے کے باوجود دیکھا جاتا ہے کہ ان کے درمیان اس وقت دراڑیں پیدا ہو جاتی ہے جو کہ زندگی بھر پھر ختم ہی نہیں ہوتی اور وہ
وسائل کی تقسیم پر اور یہ تقسیم تعلقات کی تقسیم کی وجہ بن جاتی ہوتی ہے۔
دنیا کی مثال سمندر سی ہے جس میں موجود بڑی بڑی مچھلیاں اپنی جیسی ہی مگر کمزور اور اپنے سے چھوٹی چھوٹی مچھلیوں کو خود کی بھوک مٹانے کیلئے کھا جاتی ہیں جبکہ دوسری طرف چھوٹی مچھلیاں اپنے وجود کو برقرار رکھنے کی جدو جہد کرتی ہوئی پائی جاتی ہیں، بڑی مچھلیاں طاقت کے ہونے سے شکار کرتی ہیں جبکہ چھوٹی کمزور ہونے کی وجہ سے شکار ہوتی ہیں۔ کمزور لوگ بھی یہاں پر چھوٹی مچھلیوں کی طرح خود کے وجود کو برقرار رکھنے کیلئے جدو جہد کرتے رہتے ہیں جبکہ طاقتور انہیں خود کے ذاتی مفادات کیلئے خوب استعمال کرتے ہوتے ہیں۔
یہاں پر ایک انسان کی کمزوری دوسرے کی طاقت ہوتی ہے اور ہمیشہ کمزور لوگ خود کے وجود کو برقرار رکھنے کیلئے طاقتور پر انحصار کرتے ہوتے ہیں جبکہ دوسری طرف طاقتور اپنی طاقت کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے اور اپنے مفادات کے حاصل کیلئے کمزوروں کو تحفظ فراہم کرتے ہوتے ہیں لیکن اسطرح کے وہ زیادہ سے زیادہ ان پر انحصار کرتے رہے اور یہاں تک کہ کمزور جس وجود کو برقرار رکھنے کیلئے تحفظ کی غرض سے ان پر انحصار کرتے ہوتے ہیں طاقتور اسی وجود کو ہی خود کے مفادات کے حاصل کیلئے گھن کی طرح چاٹتے چاٹتے ختم کر دیتے ہوتے ہیں اور جب کمزور طاقتور کے کسی کام کے نہیں رہتے ہوتے ہیں تو ان کی جگہ کوئی اور ٹھیک ان کے جیسے ہی دوسرے لوگوں کو رکھ لیتے ہوتے ہیں۔
دنیا میں ہمیشہ سے کمزوروں کی حیثیت دوسرے درجے کی رہی ہے وہ چاہیے کوئی ریاست کی صورت میں ہو، گروپ ہو یا پھر فرد واحد اور آپ کے اپنے وجود کو برقرار رکھنے کیلئے آپ کا زیادہ سے زیادہ طاقتور ہونے کی بجائے ارد گرد کے لوگوں کی کمزوریوں سے اچھے سے واقفیت کا ہونا ضروری ہے اور اسی میں ہی آپ کی بقا کا راز پوشیدہ ہے، اگر جنگل کے بادشاہ شیر کی کمزوریوں کا بندر کو بھی علم ہو جائے تو پھر بندر بھی شیر بن جائے۔
انسان کبھی بھی اپنی صرف ضروریات تک محدود نہیں رہا، اس وجہ سے انسان ہمیشہ سے اپنی اس لامحدود کی خواہش کی تکمیل کیلئے مختلف طریقوں پر مختلف ادوار میں عمل پیرا ملتا ہیں جس سے وہ اپنی اس لامحدود کی خواہش کی تکمیل کر سکے اور اسطرح کا کھیل دنیا میں ہمیشہ سے چلا آرہا ہیں۔
ایسا ہرگز نہیں کہ پہلی سٹیج پر کھڑے لوگ اپنے مفادات کیلئے دوسروں کو استعمال نہیں کرتے ہوتے، ہاں یہ ضرور ہے کہ یہ لوگ کمزور ہونے کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ دوسری سٹیج پر کھڑے لوگوں کے ہاتھوں استعمال ضرور ہوتے رہتے ہیں لیکن یہ بھی اپنی طاقت کے مطابق اور مواقعات کے ہونے پر دوسروں کو استعمال کرتے ہوتے ہیں۔ زندگی کی ان دونوں سٹیج کے ساتھ دوسروں کو خود کے مفادات کیلئے استعمال کرنے کے لیولز انہیں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، ایک چھوٹا لیول اور دوسرا بڑا لیول۔ چھوٹے لیول پر استعمال کرنے والے یہی پہلی سٹیج پر کھڑے لوگ ہی ہوتے ہیں کیونکہ ایک تو یہ بہت کمزور قسم کے لوگ ہوتے ہیں اور دوسرا یہ اس قدر اپنی ضروریات میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں کہ انہیں ضروریاتِ زندگی سے زیادہ کچھ سوجھتا ہی نہیں ہوتا ہے جبکہ دوسری طرف سے جتنا بھی بڑے لیول پر لوگوں کو استعمال کیا جاتا ہوتا ہے وہ یہ دوسری سٹیج پر کھڑے لوگ ہی ہوتے ہیں۔
دوسروں کو اپنے مفادات کیلئے استعمال کرنا یہ ایک ایسا آرٹ ہے جو جس قدر اس سے اچھے سے واقفیت رکھتا ہوتا ہے وہ اس قدر ہی غیر معمولی جسے حقیقی معنوں میں غیر معمولی کہا جا سکتا ہے اس کا حقدار ٹھہرتا ہے، آپ اس آرٹ کے استعمال سے عدم واقفیت کے ہوتے ہوئے کبھی بھی غیر معمولی مقام کو نہیں چھو سکتے ہیں کیونکہ کوئی بھی شخص اکیلے غیر معمولی مقام تک نہیں پہنچ سکتا ہے اور جس کیلئے دوسروں کی معاونت کا ہونا ضروری ہے اور جس قدر آپ کی زیادہ سے زیادہ پیروکاروں کی فہرست کی تعداد بڑھتی جائے گی اس قدر زیادہ سے زیادہ آپ کے غیر معمولی ہونے کے امکانات روشن ہوتے چلے جائے گئے۔
دنیا میں لوگوں کو اپنے مفادات کے استعمال کرنے کیلئے ہزاروں ذریعے ہوسکتے ہیں لیکن ان ذریعوں سے زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرنے کے کامیاب ترین طریقے کار جو میں نے ابھی تک جانے وہ گیارہ ہیں۔
دنیا میں لوگوں کو ان گیارہ طریقوں سے بڑی ہی آسانی سے خود کے مفادات کے حاصل کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہیں اور ان میں سے کسی ایک چال کا بھی اعلیٰ انداز سے استعمال کر کے آپ اپنے مفادات کے حاصل میں کامیابی کے نتائج کے حقدار ٹھہرے گئے۔
پہلا لوگوں کو اپنی ذہانت سے متاثر کر کے اور اس کیلئے آپ کا ذہین ہونا ضروری ہے اور اگر آپ اس قدر ذہین نہیں ہے تو پھر دوسرا راستہ یہ ہے کہ لوگوں کے جذبات کے ساتھ کھیلا جائے اور یہ پہلے کا متبادل راستہ ہے، انسان ایک جذباتی مخلوق ہے، اگر آپ دوسروں کے جذباتوں کو ابھارنے پر مہارت رکھتے ہے تو پھر انہیں اپنے حق میں جیسا چاہے استعمال کرتے چلے جائے کیونکہ اس صورتحال میں ایک انسان کی حالت ایسی ہوتی ہے جو انسان پر طاری ہونے کے بعد انسان کی تمام فراست اپنا کام کرنا چھوڑ دیتی ہوتی ہے اور ایسی حالت میں ایک انسان جنت کے عوض جہنم تک کا سودا کر بیٹھتا ہے، اگر آپ سے دوسروں کی عقل کو متاثر نہیں کیا جاسکتا ہے تو عقل کی بجائے ان کے جذبات پر زور سے چوٹ لگائی جائے اور یہ جتنا زیادہ شدت سے لگے گئی اتنا ہی زیادہ سے زیادہ آپ کے حق میں کامیابی کے حاصل کے امکانات روشن ہو جائے گئے، پہلے والا کام جس قدر مشکل ہے دوسرے والا اتنا ہی آسان۔
تیسرا اپنے مفادات کے حاصل کیلئے لوگوں کے درمیان خوف کی فضا بنائی جائے اور پھر خود کو مسیحا کے طور پر پیش کیا جائے، یہ ہمیشہ سے مذہبی لوگوں کا ہتھیار رہا ہے۔ چوتھا لوگوں کے اندر بیٹھے لالچی انسان کو بیدار کیا جائے اور پھر خود کے حق میں استعمال کرتے ہوئے ان کی ہوس کو تھوڑا تھوڑا کر کے اسطرح پورا کیا جائے اور ساتھ ہی مکمل احتیاط سے کام لیتے ہوئے کہ وہ حال کی نسبت ہر آنے والے دن میں زیادہ سے زیادہ آپ کے محتاج ہوکر رہے اور آپ اپنے اوپر انہیں اس قدر انحصار کرنے والا بنا دے کہ ان کو آپ کے سہارے کے بغیر اپنے وجود کے مٹ جانے کا ہر وقت خطرہ لاحق رہے۔ پانچواں لوگوں کی خواہشات جو ہر شخص کی سب سے بڑی کمزروی ہوتی ہیں، ایک انسان جس معاملے میں نیک اور بد کے درمیان تمیز نہیں رکھتا ہوتا اور اس کے حصول میں کسی بھی حد تک چلا جاتا ہیں وہ اس کی اپنی خواہشات ہی ہوتی ہیں، ہمیشہ انسانی کان خودبخود اس طرف مڑ جاتے ہوتے ہیں اور بڑی ہی توجہ کے ساتھ اس بات کو سنتے اور پھر اس پر عمل کرتے ہوتے ہیں جو ان کے دل کی بات ہوں اور اگر آپ یہ جانتے ہیں اور آپ وہی بات کرتے ہیں تو آپ لوگوں کی توجہ کے ساتھ ساتھ ایسی سچی عقیدت کے مستحق ٹھہروں گئے جیسے کہ آپ کوئی دیوتا ہو۔
چھٹا اور سب سے کامیاب ترین طریقہ وہ یہ کہ محبت، دوستی اور ہمدرد کا لبادہ اوڑھ کر اپنے مفادات کو حاصل کیا جائے جو کبھی بھی ناکام نہیں ہوتے ہیں۔ ساتواں دوسروں کو اعلیٰ ہونے کی غذا کہلائی جائے، ہمیشہ سے تاریخ میں دیکھا جاتا رہا ہیں کہ لوگوں نے اعلیٰ نسل کو ہتھیار بنا کر اپنے ایسے ایسے مفادات کا حاصل ممکن بنایا جو وہ کبھی بھی کسی دوسرے طریقے سے ممکن نہیں تھا، ہٹلر اس طریقہ کار میں امام کا درجہ رکھتا ہیں۔ آٹھواں لوگوں کی عادتوں کو اپنے مفادات کے حساب سے ڈھال دینا چاہیے، لوگ جس قدر زیادہ سے زیادہ آپ کی لگائی گئی عادتوں میں غرق ہوتے چلے جائے گئے اس قدر ہی زیادہ سے زیادہ بہترین پیروکاروں کی صورت میں ڈھلتے چلے جائے گئے، نشے آوار ادویات کے استعمال کرانے والے پہلے پہل اسی حکمت عملی پر ہی عمل پیرا ہوتے ہیں اور جب لوگ ایک وقت کے بعد اس کے عادی ہو جاتے ہیں تو پھر وہ زندگی بھر اس سے نکل ہی نہیں پاتے، یہاں تک کے زندگی ہی جواب دے جاتی ہیں لیکن یہ عادت ختم نہیں ہوتی ہے۔ نواں لوگوں کے اندر امیدوں کے روشن چراغ جلا کر جوکہ سیاستدانوں کا ہمیشہ سے طاقتور ترین ہتھیار رہا ہے، لوگ ہمیشہ خود سے کچھ کرنے کی بجائے دوسروں سے بہت جلد اچھی اچھی امیدیں وابستہ کر لیتے ہوتے ہیں اور اسطرح کی حالت میں گھیرے ہوئے لوگوں کو خود سے بھی استعمال نہیں کرنا پڑتا ہے بلکہ یہ خودبخود استعمال ہوتے چلے جاتے ہیں، جیسے ہی لوگوں کی نظروں میں کہیں امید کا روشن چراغ جلا دیکھتا ہوتا ہے ان کا آگے والا قدم اس کی طرف خود بخود چلنے لگتا ہے، اگر آپ لوگوں کے اندر روشن امیدیں پیدا کرنے کے ہنر پر مہارت رکھتے ہیں تو پھر آپ اپنے پیچھے پیروکاروں کی ایک بڑی تعداد پاؤ گے کیونکہ ہر دور میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد مایوسی میں ڈوبی ہوئی دیکھنے کو ملتی ہوتی ہے اور ان کیلئے امید کی روشنی دیکھانے والے سے بڑا محسن کیوں اور نہیں ہوتا ہے۔
دسواں اگر آپ دوسروں کی ضروریات کو اچھے سے جانتے ہیں اور دوسرا ان ضروریات کو پورا کرنے کی طاقت بھی رکھتے ہوتے ہیں تو پھر ایسے لوگوں کیلئے آپ دیوتا کا مقام رکھتے ہوتے ہیں اور جیسے چاہیے خود کے حق میں استعمال کرتے جائے اور وہ بھی خوشی خوشی استعمال ہوتے جائے گئے اور اگر ان کیلئے مشکل بھی ہو تب بھی ان کی حالت ایسے ہوگئی جیسے فاتح کے سامنے مفتوح کھڑے ہوئے لوگوں کی ہوتی ہے، جن کے پاس تمام شرائط مانے بغیر دوسرا کوئی راستہ ہی نہیں ہوتا ہے، ضرورت انسان کو ایسی حالت پر لا کھڑا کر کے پٹختی ہے مگر یہ ضرورت کی جسامت پر بھی ہوتا ہے لیکن ہر انسان اس کے ہوتے ہوئے بے بس سا ہوتا ہے اور ہر طرح سے استعمال ہونے کیلئے مجبور ہوکر رہ جاتا ہوتا ہے کیونکہ کیوں اور راستہ نہ ہونے کی وجہ سے خود کے وجود کو برقرار رکھنے کیلئے ایسا کرنا ناگزیر ہوجاتا ہے۔
گیارہواں اگر آپ اچھے قصہ گوئی ہے تو پھر آپ کا سکوپ سب سے زیادہ ہے، اس دنیا میں اور اسطرح کے ہنر پر مہارت رکھنے والوں نے لوگوں کو خوابوں کے سبز باغ دکھا کر قوموں کی قوموں کو خود کے مفادات کیلئے جیسے چاہا خوب استعمال کیا اور یہ ایک بہترین ہتھیار ہے کیونکہ لوگوں کی اکثریت حقیقت کی بجائے خوابوں کی دنیا میں رہنے والوں کی ہوتی ہے اور یہ لوگ بڑی آسانی سے استعمال ہو جاتے ہیں۔ دنیا میں دوسروں کو خود کے مفادات کیلئے استعمال کرنے کے ذریعے آج بھی ہزاروں کی تعداد میں ہوسکتے ہیں لیکن ان ذریعوں کو اعلیٰ انداز سے کامیاب بنانے والے کامیاب ترین طریقے یہی ہیں۔ ہر وہ شخص جو دوسروں کو خود کے مفادات کے حصول کیلئے استعمال کرتا ہیں وہ انہیں گیارہ حکمت عملیوں میں سے کسی ایک پر یا پھر مختلف حالات اور مختلف مزاج کے لوگوں کے ساتھ نمٹتے ہوئے وقت ضرورت ان سب پر عمل پیرا ملتے ہیں، جیسا کہ مذاہب اور ریاست کو بطور ذریعہ استعمال کرنے والے ہمیشہ ان سب طریقوں پر بیک وقت عمل پیرا ملتے ہیں اور جبکہ استعمال ہونے والے بھی انہیں کے ذریعے استعمال ہوتے ہیں۔
دنیا کا ہر وہ تعلق جو ایک انسان کا دوسرے انسان کے ساتھ ہیں وہ چاہے بلواسطہ ہو یا پھر بلاواسط جتنا بھی خوبصورت شکل میں کیوں نہ ہو ان میں سے ایک اپنے مفادات کو حاصل کر رہا ہے جبکہ دوسری طرف کا انسان جانے انجانے اس کے مفادات کیلئے استعمال ہورہا ہے۔ استعمال کرنے والے ہمیشہ ایسے ایسے خوبصورت لبادے اوڑھ کر خود کو پیش کرتے ہیں کہ استعمال ہونے والوں کی نظریں اس خوبصورت چمک سے آگے ہی نہیں جاتی جہاں پر معاملے کی اصل حقیقت موجود ہوتی ہے جبکہ استعمال ہونے والے استعمال کرنے والوں کو اپنا محسن خیال کرتے ہوئے اس قدر عقیدت رکھتے ہوتے ہیں کہ ان کے ہر عمل کے پیچھے اندھا دھند تقلید؟ کرتے جاتے ہیں۔
ہم اگے چل کر انسانی زندگی کے ایسے تمام چھوٹے بڑے پہلوؤں کا مطالعہ کریں گئے جن سے ایک انسان کا بلواسطہ یا بلاواسط تعلق ہوتا ہیں اور اسی تعلق کو بطور ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے والے خود کے مفادات کیلئے کیسے کیسے ذریعوں کے ساتھ طریقوں پر عمل پیرا ہوتے ہیں ؟ ہم یہ بھی جانے گئے کہ ایسی کون سی وجوہات ہوتی ہیں جو ایک انسان کو اپنے جیسے دوسرے انسان کے ہاں استعمال ہونے کیلئے مجبور کر دیتی ہیں اور اگر وہ استعمال ہونے کے باوجود اس سے بے خبر ہیں تو پھر اس کی کیا وجوہات ہیں ؟ ہم سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ تعلقات کے نام پر کیسے ہم انسان ایک دوسرے کو خود کے ذاتی مفادات کیلئے استعمال کرتے ہوتے ہیں اور ان تعلقات کی کتنی اقسام ہیں اور دوسرا
ان اقسام میں سے سب سے کامیاب قسم کون سی ہیں اور اس کی وجوہات کیا ہیں ؟
کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ دو انسانوں کے درمیان استعمال کرنے اور استعمال ہونے کے بغیر بھی کوئی تعلق ہو اور اگر ہیں تو اس کی کیا صورت ہوگئی ؟
ہم دیکھیے گئے کہ بڑے لیول پر استعمال کرنے کے کون کون سے ذریعے ہیں اور ان کو استعمال کرنے کے ان گیارہ طریقوں میں سے کون سے استعمال ہوتے ہیں جبکہ چھوٹے لیول پر کون سے ذریعے ہوتے ہیں اور ان کو متاثر انداز سے کامیاب بنانے والے طریقے کار کون سے ہیں ؟
یہ سب ایسے سوالات ہیں جن کے جوابات ہم آگے کو جانے گئے بطور معاشرے کو نمونے کے طور پر اپنے سامنے رکھتے ہوئے اور تاریخ کو بطور ثبوت ہم دیکھیے گئے کہ کیسے کیسے ایک انسان اپنے ہی جیسے دوسرے انسانوں کو خود کے مفادات کیلئے کیسے کیسے استعمال کیا کرتا تھا اور اب وہ سب کیسی کیسی اشکال میں اپنا وجود برقرار رکھا ہوا ہیں اور ان میں وقت کے ساتھ آنے والی تبدیلیوں کا بھی گہرائی کے ساتھ جائزہ لیے گئے۔