پرانے زمانے کی بات ہے کہ ایک سپاہی کے دو بیٹے تھے اور وہ ہر باپ کی طرح اپنے بیٹوں کو اکثر اپنی عمر کا نچوڑ ایک نصیحت کی صورت میں کرتا ہوتا تھا کہ اے میرے آنکھوں کے نور! کبھی بھی زندگی میں کسی دوسرے پر انحصار نہ کرنا اور اپنے آپ پر اچھے وقت کے ہونے کے باوجود بھی خود کو برے وقت کے لیے تیار رکھنا کیونکہ دنیا میں کچھ بھی ہمیشہ کیلئے نہیں ہوتا ہے۔

وقت گزرتا گیا اور ایک جنگ میں وہی سپاہی بادشاہ کی جان بچاتے ہوئے موت کا شکار ہو جاتا ہے۔ بادشاہ کو جنگ کے خاتمے کے بعد اپنے اس سپاہی کی اکثر قربانی یاد آتی تو اس پر بادشاہ ہمیشہ دکھی ہوتا کہ اس نے اپنی جان کی پرواہ کیئے بغیر میری جان پچائی اور میں اس کیلئے کچھ بھی نہ کر پایا، کاش میں اس کی کوئی آخری خواہش ہی پوری کر پاتا۔ کچھ عرصے کے بعد بادشاہ کو پتا چلا کہ اس کے دو نوجوان بیٹے بھی ہے تو بادشاہ نے دونوں کا زندگی بھر کیلئے ایک بڑا وظیفہ مقرر کردیا تو یہ بات تمام ریاست میں ہوا کی طرح پھیل گئی۔ جس پر ملکہ حیران ہوئی کہ اتنا زیادہ پیسہ تو آپ اپنے ویزرے اعظم اور سپاہ سالار کو بھی نہیں دیتے تو بادشاہ نے کہا کہ اے میرے گھر کی روشنی! میرے وزیر اعظم اور سپاہ سالار کے باپ ان دو پچوں کے باپ جیسے بھی تو نہیں تھے۔ بادشاہ کی اس نوازش پر دونوں نوجوان خوش ہوئے مگر ان میں سے چھوٹا بیٹا اپنے باپ کی اس نصحیت کو یاد کرتے ہوئے اتنا بڑا وظیفہ ملنے کے باوجود بھی مصوری کے کام کرنے پر لگا رہا۔ لوگ حیران ہوتے کہ آخر تمہیں ان بیکار کی تصویریں بنانے پر کیا ملتا ہے ؟ اب تو عمر بھر کیلئے آپ پر بادشاہ نے دولت کے دروازے کھول دیے ہے مگر وہ لوگوں کی باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے کام میں لگا رہا۔ جبکہ بڑا بھائی اتنی زیادہ دولت کے آنے پر گھر بیٹھ گیا اور سارا وقت عیاشی میں گزارتا اور اپنے بھائی کو ہمدردی سے ہر وقت کہتا کہ اس دو چار پیسوں کے لیے تم کیوں راتوں کی نیند اور دنوں کا سکون برباد کیا ہوا ہے، لیکن وہ ہر وقت باپ کی نصیحت کو یاد دلاتا، جس پر بڑا بھائی باپ کی ان باتوں پر کان بند کر لیتا۔ وقت گزرتا رہا اور آخر میں خدا کی کرنی کچھ ایسی ہوئی کہ اس ملک پر کسی اور بادشاہ نے چراہی کر کے قبضہ کر لیا اور اسطرح دونوں بھائیوں کا وظیفہ بھی ختم ہو کر رہ گیا۔ اتفاق سے نئے بادشاہ کو خوبصورت عمارتیں بنوانے کا بہت شوق تھا اور اس نے اپنے ملک کی عمارتوں کے لیے دوسرے ممالک اور اپنی نئی ریاست کے دور دراز علاقوں سے خوبصورت عمارتیں تعمیر کروانے کے ساتھ ان پر خوبصورت ڈائزین بنوانے کیلئے مصوروں کو اپنے شاہی محل میں رکھ لیا اور اس سپاہی کا چھوٹے بیٹا جو اس وقت تک اپنی قابلیت کے عروج پر پہنچ چکا تھا اسے اس کے ہنر کی مہارت کو دیکھتے ہوئے ایک بڑا عہدہ بخش دیا جبکہ بڑے بھائی کے پاس کوئی اور ہنر نہ ہونے کی وجہ سے روٹی کے بھی لالے پڑ گئے اور اسطرح چھوٹا بھائی اپنے باپ کی نصیحت پر عمل کرنے کی وجہ سے زندگی کے آگے کے دن بھی خوبصورتی سے گزارنے لگا جبکہ بڑا بھائی زندگی بھر کیلئے دوسروں کا محتاج بن کر رہ گیا۔

اے عزیز! زندگی میں کبھی کسی پر خدا کی ذاتِ اقدس کے سوا انحصار نہیں کرنا چاہیے، دوسروں کی دی ہوئی راحت بھی ایک وقت گزرنے کے بعد تکلیف میں تبدیل ہو جاتی ہے اور آپ کی اپنی تکلیف بھی محنت کرنے سے راحت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔

وقتی طور پر فائدا ضرور اٹھائے اگر کچھ کہیں سے مل رہا ہے مگر اس کے ساتھ چپک کر بیٹھ نہ جائے، چاہیے آپ کے پاس دنیا جہاں کے خزانے بھی ہیں پھر بھی کسی ایسے ہنر کے ساتھ خود کو تیار رکھے جو برے وقت میں آپ کے کام کو آئے اور دنیا میں ہمیشہ سے داناؤں نے یہی سبق پڑھایا ہے۔