نام کا میں مزدور ہو، اندر سے چوروں چور ہو، غربت کے ہاتھوں مجبور ہو، راحت نام کی چیز سے کوسوں دور ہو
زمیں پر بے آسرا ہو،
دنیا جہاں کے ظلم سہتا ہو، دھوپ ہو یا پھر چھاؤں، کام پر جاتا ہی جاتا ہوں
سنا ہے میرے نام کی چھٹی ملک بھر منائی جارہی ہے،
دنیا کو میری اہمیت بتائی جارہی ہے،
مجھے تو آج بھی لمحے بھر کا سکوں نہیں،
راحت نام کی چیز سے، زندگی میں کبھی شناسائی ہوئی نہیں،
میرے نام پر چھٹیاں نہ کیا کرو،
بس میری محنت کا صلہ اچھا دے دیا کرو،
چھٹی کے نام پر اگر میں آج سو جاؤ، تو شام کا کھانا کہاں سے لاؤں ،
میرے پچے اکثر بھوکے پیٹ سو جاتے ہیں،
دو وقت کی روٹی کو ہم ترس جاتے ہیں،
مشکلوں سے ہمت نہیں میں ہارتا، کتنا ہی لوگوں کا پیٹ ہو میں پالتا،
ہم بھی خدا کی مخلوق ہیں،
کمتر ہی سہی، ہمیں بھی لگتیں بھوک ہیں،
مزدوری دیتے ہوئے بھیک کا احساس دلایا جاتا ہے، کام کرنے کے بعد مجھ سے ہی کام کا حساب مانگا جاتا ہے
خدا کا خوف کھایا کرو عاشق،
اگر احساس ہے دل میں تو اس وقت ہی دیکھایا کرو